مواد کا کوڈ۔: 75
ہٹس: 1831
تاریخ اشاعت : 07 October 2023 - 06: 55
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(36)
جب صلح نامہ لکھا گیا اوراس پر دستخط وغیرہ ہوگئی اور دونوں طرف بھیج دیا گیا تو اس وقت امیرالمومنین نے دشمن کی فوج کے تمام قیدیوں کورہا کردیا،ان قیدیوں کی رہائی سے پہلے ہی عمروعاص اصرار کررہا تھا کہ معاویہ امام علیہ السلام کی فوج کے قیدیوں کو پھانسی دیدے۔

قیدیوں کی رہائی


جب صلح نامہ لکھا گیا اوراس پر دستخط وغیرہ ہوگئی اور دونوں طرف بھیج دیا گیا تو اس وقت امیرالمومنین نے دشمن کی فوج کے تمام قیدیوں کورہا کردیا،ان قیدیوں کی رہائی سے پہلے ہی عمروعاص اصرار کررہا تھا کہ معاویہ امام علیہ السلام کی فوج کے قیدیوں کو پھانسی دیدے جب معاویہ نے امام علیہ السلام کے اس بزرگ کام کو دیکھا تو بہت زیادہ کانپنے لگا اورعاص کے بیٹے سے کہا:اگر ہم لوگ قیدیوں کو قتل کردیتے تو دوستوں اور دشمنوں کے درمیان رسوا ہوجاتے۔


امام علیہ السلام کی طرف سے ابن عباس کو بھیجنا


امام علیہ السلام صفین سے روانہ ہوکرکوفہ جاتے وقت حکمیت کے واقعہ سے غافل نہ تھے اور ہمیشہ ضروری نکتوں کی طرف ابن عباس کو کہ جو چار سو لوگ اس علاقے میں بھیجے گئے تھے توجہ دلاتے رہے، معاویہ بھی حکمین کے کام سے غافل نہ تھا اوراس نے بھی چار سو لوگوں کو اس علاقے میں بھیجا امام علیہ السلام کے دوستوں اور معاویہ کے دوستوں میں فرق یہ تھا کہ شامی افراد آنکھ،کان بند کئے ہوئے اپنے سرپرست کے مطیع وفرماں بردار تھے اور جب بھی معاویہ کی طرف سے کوئی خط پہنچتا تو کوئی بھی نہیں پوچھتا تھا کہ معاویہ نے کیا لکھا ہے، حالانکہ جب بھی امام علیہ السلام کا خط ابن عباس کے پاس آتا تھا اس وقت سب کی نگاہیں ابن عباس پر ہوتی تھیں کہ امام علیہ السلام نے انہیں کیا حکم دیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ابن عباس نے ان لوگوں کی مذمت کی اور کہا جب بھی امام علیہ السلام کی طرف سے کوئی پیغام آتا ہے توتم لوگ پوچھتے ہوکہ کیا حکم آیا ہے اگر اسے نہ بتاؤں تو تم لوگ کہوگے کہ کیوں چھپادیا اور اگر اسے بیان کردوں تو یہ راز سب پر ظاہر ہوجائے گا اور پھر ہمارے لئے کوئی راز، راز نہیں رہ جائے گا۔(1)


فتنہ حکمیت کا خاتمہ


وہ مسائل جن کے لئے ضروری تھا کہ دونوں طرف کے نمائندے اس موضوع پر گفتگو کریں اور اس کے حکم کو کتاب وسنت سے نکالیں اور امام علیہ السلام اور معاویہ کے ساتھیوں کو اس کی خبر کردیں وہ موضوع یہ ہیں ۔
1۔ عثمان کے قتل کی تحقیق وجستجو۔
2۔ امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا۔
3۔ امام علیہ السلام کی قانونی حکومت سے معاویہ کی مخالفت اوراس کا صحیح ہونا۔
4۔ وہ چیز جو ایسے حالات میں صلح کا سبب بنے۔
لیکن افسوس کہ حکمین نے جس موضوع پر بحث وگفتگو نہیں کی وہ یہی چار موضوع تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک خاص سابقہ، تجربہ کے ساتھ حکمیت کے میدان میں وارد ہوا ہے اور اپنی ہی خواہش کے مطابق حکم چلانا چاہتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان موضوعات کا حکمین سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔
جب کہ حکمین کا وظیفہ یہ تھا کہ ان چاروں موضوع پرمنصفانہ بحث وگفتگو کرتے اور شاید امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا اورمرکزی حکومت معاویہ کی سرکشی پرتوجہ دینا ہی کافی تھا کہ دوسرے موارد میں صحیح رائے ومشورہ لیاجاتا لیکن افسوس صد افسوس کہ امام علیہ السلام کے دشمن نما ساتھیوں نے آپ پر ایسے نمائندہ کو تحمیل کردیا تھا کہ جو فیصلہ اور دلیل قائم کرنے میں ایسے ذرات کی طرح تھا جسے ہوا کے تھپیڑے ادھر سے ادھر کرتے ہیں ۔
عمروعاص نے " دومة الجندل" میں قدم رکھتے ہی ابوموسیٰ اشعری کو پیغمبر کا بزرگ صحابی اور اپنے سے بزرگ سمجھا اور اس کا احترام کرنے لگا اور گفتگو کرتے وقت ہمیشہ اسے مقدم کرتا تھا اورجس وقت یہ طے پایا کہ دونوں حَکم علی اور معاویہ کو معزول کریں اس وقت بھی عمروعاص نے اپنا عقیدہ ظاہر کرنے اور اپنے پیشوا کو معزول کرنے میں بھی اسی کو مقدم رکھا ، کیونکہ دونوں طرف کی سیرت ان دونوں کے دومة الجندل میں رہنے تک یہی تھی ، اسی وجہ سے پہلے ابو موسیٰ نے امام علیہ السلام کو خلافت سے دور کیا اور چلتے وقت تمام دوستوں نے جو سفارشیں کی تھیں اسے نظر اندازکردیا لیکن عمروعاص نے فوراً ہی معاویہ کو مسند خلافت پر بٹھا دیا ! یہاں بھی دونوں کےدرمیان ہوئی باتوں کو نقل کررہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ حکمیت کا کھیل کس طریقے سے ختم ہوا اور امام علیہ السلام کے سادہ لوح اور ضدی ساتھیوں نے اسلام کو کیا نقصان پہنچایا ۔
عمروعاص نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ عثمان مظلوم قتل ہوئے ہیں ؟
ابوموسیٰ نے کہا: ہاں ۔
عمروعاص نے کہا: اے لوگوں تم لوگ گواہ رہنا علی کے نمائندے نے عثمان کے مظلوم ہونے کا اعتراف کرلیا ہے،اس وقت ابوموسیٰ اشعری کی طرف متوجہ ہوکرکہا،کیوں معاویہ سے کہ جو عثمان کا ولی ہے اپنا منھ پھیرے ہو جب کہ وہ بھی قرشی ہے؟ اور اگر لوگوں کے اعتراض کرنے کی وجہ سے ڈررہے ہو کہ لوگ کہیں گے کہ ایسے شخص کو خلافت کے لئے چنا ہے جس کا اسلام میں کوئی سابقہ اور خدمات نہیں ہے توتم یہ جواب دے سکتے ہو کہ معاویہ خلیفہ مظلوم کا ولی ہے اورخلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کی قدرت رکھتا ہے اور تدبیر وسیاست کے لحاظ سے ممتاز ہے اور پیغمبر سے نسبت کے اعتبار سے پیغمبر کی بیوی (ام حبیبہ) کا بھائی ہے اس کے علاوہ اگر خلافت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہوگی تو سب سے زیادہ تمہارا احترام کرے گا۔
ابوموسیٰ اشعری نے کہا: خدا سے ڈر، خلافت ان لوگوں کے لئے ہے جو اہل دین و فضیلت ہیں اوراگر خلافت کے لئے خاندانی شرافت معیار ہے تو قریش میں سب سے شریف علی ہے ، میں نے ہرگز پہلے مہاجرین کو نظر انداز نہیں کیا، معاویہ کو خلافت کے لئے منتخب نہیں کروں گا، یہاں تک اگر معاویہ میرے فائدے کے لئے خلافت سے دور ہوجائے پھر میں اس کی خلافت کے لئے تائید(ووٹ) نہیں دوں گا اگر تو چاہے تو عمر بن خطاب کا نام زندہ کروں اور عبداللہ بن عمر کو خلافت کے لئے منتخب کروں۔
عمروعاص نے کہا: اگر تو عبداللہ بن عمر کی خلافت چاہتا ہے تو کیوں میرے بیٹے عبداللہ کی تائید نہیں کرتا کہ وہ ہرگز اس سے کم نہیں ہے اور اس کی سچائی اور فضیلت سب پر واضح ہے؟
ابوموسیٰ نے کہا: وہ بھی اپنے باپ کی طرح اس فتنے میں شریک ہے اور خلافت کے لائق نہیں ہے ۔
عمروعاص نے کہا: خلافت اس کے لئے قطعی ہے جو خود بھی کھائے اور دوسرے کو کھلائے اورعمر کے بیٹے میں یہ چیز موجود نہیں ہے۔اب ابھی تک جب ہم کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ سکے ہیں تو کوئی اور راہ حل تلاش کریں شاید کوئی متفقہ نتیجے تک پہنچ جائيں اس وقت طرفین نے الگ الگ مٹینگیں کی اور پھر اس طرح نظریہ پیش کیا:
ابوموسیٰ نے کہا: میرا نظریہ ہے کہ دونوں (علی اور معاویہ )کو خلافت سے دور کر دیں اورخلافت کا فیصلہ مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں تا کہ وہ لوگ جس کو بھی چاہیں خلیفہ منتخب کریں۔
عمروعاص نے کہا: میں اس نظریہ سے موافق ہوں اور ضروری ہے کہ اپنے نظریوں کورسمی طور پراعلان کروں، ناظر اوردوسرے افراد جو حکمین کے فیصلے کے منتظر تھے سب کے سب جمع ہوگئے تاکہ ان دونوں کی گفتگو سنیں، اس وقت عمرو نے ابوموسیٰ کی بیوقوفی اور کم عقلی سے فائدہ اٹھایا اور اسے مقدم کیا کہ گفتگو کا آغاز کرے اور اپنے نظریہ کو بیان کرے، ابوموسیٰ ان تمام چیزوں سےغافل یہ سوچ رہا تھا کہ ممکن ہے کہ عمروعاص میری گفتگو کے بعد اس نظریہ کی جس پر دونوں نے موافقت کی تھی تائید نہ کرے لہٰذا اس نے اپنی گفتگو شروع کی اور کہا:" ہم اور عمروعاص ایک نظریہ پر متحد ہیں اور امید ہے کہ اس میں مسلمانوں کی کامیابی اور مصلحت ہو ۔
عمروعاص نے کہا: بالکل صحیح ہے اپنی گفتگو کو جاری رکھو
اس موقع پر ابن عباس ابوموسیٰ کے پاس پہنچے اور اسے دھمکی دی اور کہا کہ اگر تم لوگ ایک ہی نظریہ پر متحد ہوتو اجازت دو کہ پہلےعمروعاص گفتگو کرے اور پھر تو اپنے نظریہ کو بیان کر، کیونکہ اس سے کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ جس چیز پر متحد ہے اس کے برخلاف بیان کرے لیکن ابوموسیٰ نے ابن عباس کے منع کرنے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور کہا: چھوڑدو، ہم دونوں نے ایک ہی نظریہ پر موافقت کی ہے اور پھر اٹھا اورکہا: ہم لوگوں نے امت کے حالات کا جائزہ لیا اوراختلاف ختم کرنے اور پھر سے متحد ہونے کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں دیکھا کہ علی اور معاویہ کو خلافت سے معزول کردیں اورخلافت کے مسئلے کو مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں تاکہ وہ لوگ جس کو چاہیں بعنوان خلیفہ منتخب کرلیں، اس بنیاد پرمیں نے علی اورمعاویہ کوخلافت سے معزول کردیا۔ یہ جملے کہنے کے بعد وہ بیٹھ گیا پھر عمروعاص ابوموسیٰ کی جگہ پر کھڑا ہوا اورخدا کی حمد وثناء کے بعد کہا '' اے لوگوں ، تم نے ابوموسیٰ کی گفتگو سنی اس نے اپنے امام کو معزول کردیا اور میں اس سلسلے میں اس کا موافق ہوں اور انہیں خلافت سے معزول کررہا ہوں لیکن اس کے برخلاف ، معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا ہے وہ عثمان کا ولی اور اس کے خون کا بدلہ لینے والا ہے اور خلافت کے لئے بہترین شخص ہے''۔
ابوموسیٰ نےغصہ میں آکرعمروعاص سے کہا: تو کامیاب نہیں ہوگا جوتو نے مکروفریب اورگناہ کیا ہے تیری مثال اس کتے کی ہے کہ اگراس پر حملہ کیا جائے تو اپنا منھ کھولتا ہے اور اپنی زبان کو باہر نکالتا ہے اور اگر اسے چھوڑدیا جائے جب بھی وہ ویسا ہی ہے(2)
عمروعاص نے کہا: تیری بھی حالت گدھے کی طرح ہے اگرچہ اس کی پیٹھ پر بہت کتابیں ہوں (3)
اس وقت عمرو کا مکروفریب سب پر ظاہر ہوگیا اور لوگ منتشر ہوگئے (4)
" شریح بن ہانی" اپنی جگہ سے اٹھے اورزبردست تازیانہ عمرو کے سر پر مارا ، عمروعاص کا بیٹا اپنے باپ کی مدد کے لئے دوڑا اور شریح پر تازیانہ مارا اور لوگ دونوں کے درمیان میں آگئے۔ شریح بن ہانی بعد میں یہی کہتے تھے کہ میں بہت پشیمان ہوں کہ کیوں تازیانہ کہ جگہ پر میں نے اس کے سر پر تلوار نہیں ماری ۔(5)
ابن عباس نے کہا: خدا ابوموسیٰ کے چہرے کو برباد کردے میں نے اسے عمروعاص کے دھوکہ وفریب سے آگاہ کیا تھا لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی۔ابوموسیٰ نے کہا: یہ صحیح ہے کہ ابن عباس نے مجھے اس فاسق کے دھوکہ و فریب سے آگاہ کیا تھا لیکن میں نے اس پر یقین واطمینان کرلیا اور کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میری خیرخواہی کے علاوہ میرے بارے میں کچھ کہے گا۔(6)
اس واقعہ میں سب سے زیادہ ابوموسیٰ اشعری اوراشعث بن قیس(مسئلہ حکمیت کے کھلاڑی) لعنت وملامت کے مستحق قرار پائے، ابوموسیٰ مسلسل عمروعاص کو برا بھلا کہتا رہا اوراشعث کی زبان کند اوربند ہوگئی تھی اوربالکل خاموش تھا، آخر کار عمروعاص اورمعاویہ کے ساتھیوں نے اپنا بوریہ بسترباندھا اورشام کی طرف روانہ ہوگئے اور پورا واقعہ معاویہ کو تفصیل سے سنایا اوراسے خلیفہ مسلمین کے عنوان سے سلام کیا۔ ابن عباس اور شریح بن ہانی بھی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور پورا ماجرا بیان کیا لیکن ابوموسیٰ اپنی غلطیوں کی وجہ سے جو اس نے انجام دی تھیں مکہ کی طرف روانہ ہوگیا اور وہاں رہنے لگا۔(7)
بالآخرجنگ صفین اورحاکمیت کا حادثہ پینتالیس ہزار لوگوں یا ایک قول کی بناء پر نوے ہزار شامی اور بیس یا پچیس ہزارعراقیوں کے قتل(8) کے بعد شعبان سینتیس ہجری میں ختم ہوگیا (9) اورحضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت اور اسلامی خلافت کے لئے مختلف مشکلیں پیدا ہوگئیں جس میں سے اکثر ختم نہ ہوسکی ۔


سوالات:


1- وہ مسائل جن کے لئے ضروری تھا کہ دونوں طرف کے نمائندے اس موضوع پر گفتگو کریں کیا تھے۔؟
2- ابوموسی اورعمرو عاص نے کن مطالب پر اتفاق کیا ۔؟
3۔ عمرو عاص نے ابوموسی کو کیا دھوکہ دیا۔؟
4- جنگ صفین اور حکمیت کے واقعہ کا کیا نتیجہ نکلا۔؟


منابع:


1- وقعہ صفین ص 533، تاریخ طبری ج3 جزء6 ص37 ، کامل ابن اثیرج3 ص167 ،الاخبارالطوال ص 198
2- یہ اس آیت کریمہ کا مفہوم ہے کہ جو لوگ خدا کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں انہیں کتے سے شباہت دی جاتی ہے اور خدا فرماتا ہے: '' فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث ذالک مثل القوم الذین کذبوا بأیاتنا''(سورہ اعراف 176)
3- قرآن مجید کی اس آیت سے اقتباس '' کمثل الحمار یحمل اسفاراً''سورہ جمعہ آیت 5
4- الاخبارا لطوال ص199، الامامة والسیاسة ج1 ص 118، تاریخ طبری ج3جزء 6 ص 38 کامل ابن اثیر ج3 ص 167، تجارب السلف ص 48، مروج الذھب ج2 ص 408
5- تاریخ طبری ج3 جزء 6 ص 40، کامل ابن اثیر ص168، وقعہ صفین ص 546
6- تاریخ طبری ج3 جزء 6 ص 40، کامل ابن اثیر ص168، وقعہ صفین ص 546
7- الاخبارالطوال ص200 ، کامل ابن اثیر ج3 ص 168، تجارب السلف ص49، الامامة والسیاسة ج1ص 118
8-  مروج الذھب ج2 ص404
9- تاریخ طبری ج3 جزء 6 ص 40، طبری نے اس قول کو واقدی سے نقل کیا ہے اور مسعودی نے مروج الذھب ج٢ ص 402 اورالتنبیہ الاشراف ص265 نے بھی اسی قول کو نقل کیا ہے لیکن سب سے صحیح قول ماہ صفر سینتیس ہجری ، تجارب السلف ص 50

 
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: