مواد کا کوڈ۔: 77
ہٹس: 1815
تاریخ اشاعت : 09 October 2023 - 08: 02
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(38)
خوارج کے ساتھ امام علیہ السلام کا معاملہ بہت ہی نرم اور آسان تھا اور آپ جب بھی ان کو خطاب کرتے تھے توصرف محبت، نصیحت اورہدایت وراہنمائی کرتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز آپ سے نہیں سنی گئی ، حضرت نے مثل اس باپ کے جو چاہتا ہے کہ اپنے عاق اور سرکش بیٹے کو صحیح راستے پر لائے ان لوگوں سے معاملہ کیا اور ان کے حقوق کوبیت المال سے ادا کیا۔

فساد کو جڑ سے ختم کرنا


خوارج کے ساتھ امام علیہ السلام کا معاملہ بہت ہی نرم اور آسان تھا اور آپ جب بھی ان کو خطاب کرتے تھے توصرف محبت، نصیحت اورہدایت وراہنمائی کرتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز آپ سے نہیں سنی گئی ، حضرت نے مثل اس باپ کے جو چاہتا ہے کہ اپنے عاق اور سرکش بیٹے کو صحیح راستے پر لائے ان لوگوں سے معاملہ کیا اور ان کے حقوق کوبیت المال سے ادا کیا اورمسجد اوراس کے اطراف میں ان کے ظلم وستم شوروغل کی پرواہ نہ کی اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ اس گروہ کو بڑے ہی اطمینان اورمحبت سے معاشرے میں واپس لے آئیں اورشام کے خطرناک کینے کو جڑسے ختم کردیں چونکہ خوارج بھی ان ہی کی پیداوارتھی اور صفین کا عہد وپیمان بھی امام علیہ السلام کو یہ حق دے رہا تھا کیونکہ صلح نامہ کی عبارت میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ اگر حکمین نے قرآن وسنت کے برخلاف فیصلہ کیا تو امام علیہ السلام اپنے اصل مقام پر باقی رہیں گے(1)
امام علیہ السلام نے لوگوں کو آگاہ اورخبردار کرنے کے لئے بہت سی تقریریں کیں جوکہ معاویہ سے دوبارہ جنگ صفین کے صلح نامہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق تو جنگ دوبارہ ہونا چاہیے تاکہ دشمن کا خاتمہ ہوجائے۔ آپ اپنی ایک تقریرمیں فرماتے ہیں :'' وقد سبق استثناؤنا علیھما فی الحکم بالعدل والعمل بالحقّ سوء رأیھماوجور حکمھا ، والثّقةُ فی ایدینا بانفسنا حین خالفا سبیل الحق وآتیٰا بما لایعرف من معکوس، الحکمِ '' (2) ہم نے تو ان کی غلط رائے اور ناروا فیصلوں سے پہلے ہی ان سے تصفیہ کرلیا تھا کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق پر قائم رہنے میں بدنیتی اور ناانصافی کو دخل نہ دیں گے اب جب کہ انہوں نے راہ حق سے انحراف کیا ہے اورطے شدہ قرارداد کے برعکس لگایا ہے تو ہمارے ہاتھ میں ان کا فیصلہ ٹھکرا دینے کے لئے ایک مستحکم دلیل اور معقول وجہ موجود ہے۔
امام علیہ السلام اورآپ کے ساتھیوں کی نظر میں یہ سلسلہ شجرہ خبیثہ کو ختم کرنے اور فساد کے ریشہ کوختم کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا اوران لوگوں کی پوری سعی وکوشش یہی تھی لیکن اچانک تاریخ نے ورق پلٹا اوریہ واقعہ اس فکرونظر کے برخلاف ہوگیا اور معاویہ سے جنگ کے بجائے، خوارج سے ایک قطعی مسئلہ کی طرف جنگ چھڑ گئی، اب اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ آخرکون سی چیزسبب بنی کہ امام علیہ السلام کے صبروتحمل کا جام لبریز ہوگیا اور انہیں ان لوگوں سے جنگ کرنے پر مجبور کردیا اس مسئلہ کی علت کو مندرجہ ذیل طریقوں سے معلوم کرسکتے ہیں ۔
1۔ خبرملی کی خوارج عبداللہ بن وہب راسبی کے گھرمیں جمع ہوئے ہیں اور امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے عنوان سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اسی مقصد کے لئے بصرہ میں موجود اپنے ہمفکروں کو خظ لکھا ہےاور ان لوگوں کو دعوت دی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو خوارج کی چھاؤنی '' خیبر'' کے کنارے نہروان پہنچ جائیں اور بصرہ کے خوارج نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔(3)
2۔ دومة الجندل کے قاضیوں کے فیصلے نے کہ جس میں بے ادبی سے امام علیہ السلام کو ان کے منصب سے معزول اورمعاویہ کو ان کی جگہ پر منصوب کیا گیا تھا، امام علیہ السلام کوعمومی افکار کو روشن و واضح کرنے پر مجبورکیا یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام کوفہ کے منبر پر تشریف لائے اور خداوندعالم کی حمد ثناء کے بعد فرمایا:'' نیک اورصاحب علم وبصیرت شخص کی مخالفت حسرت وشرمندگی کاسبب ہے، میں مسئلہ حکمیت اورقضاوت کے سلسلے میں ان دونوں آدمیوں کے بارے میں منفی نظریہ رکھتا تھا لیکن تم لوگوں نے میرے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور ان دونوں کو حاکمیت کے لئے معین کیا اوران لوگوں نے اپنےعہد وپیمان کے برخلاف اورجس چیز کو قرآن کریم نے مردہ قراردیا تھا اسے زندہ کردیا اور جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا تھا اسے مردہ کردیا اوراپنے خواہشات نفس کی پیروی کی اور بغیر دلیل اورحجت کے حکم جاری کردیا، اسی وجہ سے خدا وپیغمبراورمومنین دونوں قاضیوں سے بریء الذمہ ہیں، جنگ کے لئے آمادہ اورشام چلنے کے لئے تیارہوجاؤ اوردوشنبہ کے دن نخلیہ کی چھاؤنی کے پاس جمع ہوجاؤ،خدا کی قسم ! میں اس گروہ (شامیوں) سے جنگ کروں گا اگرچہ ہمارے لشکر میں کوئی بھی باقی نہ رہے''۔
3۔ جب امام علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو کوفہ چھوڑ کر صفین پہنچ جائیں توآپ کے بعض دوستوں نے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ خوارج جو ہمارے راستے سے دورہوگئے ہیں انہیں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دیں، اس وجہ سے امام علیہ السلام نے خوارج کے سرداروں کے پاس خط لکھا اوریاد دہانی کی کہ جب میرا خط تمہارے پاس پہنچے تو میری طرف آنے میں جلدی کرنا تاکہ دشمن سے جنگ کرنے کے لئے ایک ساتھ چلیں ۔
4۔ امام علیہ السلام کا خط خوارج کے لئے ذرہ برابر بھی مؤثر ثابت نہ ہوا اورحضرت کی درخواست کو رد کردیا اس وجہ سے امام علیہ السلام ان لوگوں سے مایوس ہوگئے اورارادہ کیا کہ ان لوگوں کا انتظارنہ کریں اورجتنے سپاہی موجود ہیں یا آنے والے ہیں ان کے ساتھ صفین کی طرف جائیں، پھر آپ نے بصرہ کے حاکم ابن عباس کے پاس خط لکھا اوران سے مدد طلب کی، جب امام علیہ السلام کا خط بصرہ کے حاکم کے پاس پہنچا تو انہوں نے لوگوں کے درمیان اس خط کو پڑھ کر سنایا مگر افسوس کہ صرف پندرہ سو آدمیوں نے احنف بن قیس کی سرداری میں امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا۔ ابن عباس فوج کی اقلیت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور لوگوں کے مجمع میں بہترین تقریر کیا اور کہا: '' امیر المومنین علیہ السلام کا خط میرے پاس آیا ہے اور اس میں مجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو میری طرف جنگ میں شرکت کرنے کے لئے روانہ کرو لیکن صرف پندرہ سو لوگ جہاد کے لئے آمادہ ہیں جب کہ سرکاری رجسٹر میں ساٹھ ہزار آدمی کا نام درج ہے جتنی جلدی ہو روانہ ہوجاؤ اورعذراور بہانے سے پرہیزکرو اورجو شخص بھی اپنے امام کی دعوت کی مخالفت کرے گا بہت زیادہ شرمندہ ہوگا میں نے ابوالاسود کو حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کی روانگی کا پروگرام ترتیب دو۔ بڑی شخصیتیں مثلاً سعد بن قیس ہمدانی اورعدی بن حاتم، حجر بن عدی اور قبیلے کے بزرگ افراد نے امام کے فرمان کو دل وجان سے قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں میں خط لکھا اور اس طرح چالیس ہزار  بہادر جنگجو اورسترہ ہزارنوجوان اورآٹھ ہزارغلام کوفہ میں داخل ہوئے اور بصرہ کا لشکر بھی اسی میں شامل ہوگیا اوربالآخر بہت زیادہ اوردشمنوں کو پچھاڑنے والے سپاہی امام علیہ السلام کے پرچم تلے جمع ہوگئے۔
کچھ گروہ نے امام علیہ السلام سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ معاویہ سے جنگ کرنے سے پہلے خوارج کو ختم کردیں لیکن امام علیہ السلام نے ان کی درخواست پر توجہ نہ دی اورفرمایا: ان لوگوں کو چھوڑ دو اورایسے گروہ کی طرف چلو جو چاہتے ہیں کہ زمین پر ستمگروں کے بادشاہ رہیں اورمومنین کو اپنا غلام بنادیں، اس وقت فوج کے ہر گوشہ سے آواز بلند ہوئی اورلوگوں نے امام علیہ السلام سے کہا آپ جہاں بھی مصلحت سمجھیں ہمیں بھیج دیں کیونکہ ہم سب کا دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہے اور آپ کی نصرت و مدد کے لئے بے چین ہیں ۔
5 ۔ ایسے حساس حالات میں خبر پہنچی کہ خوارج نے عبداللہ بن خباب کو نہر کے کنارے بکری کی طرح ذبح کردیا ہے اور صرف اتنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اس کی بیوی کو قتل کردیا اور اس کے پیٹ سے بچہ نکال کر اسے بھی ذبح کردیا ہے۔
اہل سنت کے مشہورمورخ ابن قتیبہ '' الامامة والسیاسة '' میں اس بارے میں لکھتے ہیں :جب خوارج عبداللہ کے سامنے آئے تو ان سے کہا تم کون ہو؟ اس نے کہا خدا کا مومن بندہ ہوں، ان لوگوں نے کہا: علی کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے کہا وہ امیرالمومنین اورخدا اوررسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں، ان لوگوں نے کہا تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا ، عبداللہ بن خباب بن الارّت ، ان لوگوں نے کہا تمہارا باپ پیغمبر کا صحابی ہے ؟ اس نے کہا، ہاں، ان لوگوں نے کہا ، تمہیں ناراض کردیا؟ کہا، ہاں، لوگوں نے کہا وہ حدیث جو کہ تم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے پیغمبر سے سنی ہے ہمارے لئے نقل کرو، اس نے کہا ، میرے باپ نے نقل کیا ہے کہ پیغمبراسلام نے فرمایا'' میرے بعد ایسا فتنہ برپا ہوگا کہ مومن کا دل اس میں مرجائے گا، رات کو با ایمان سوئے گا اور دن میں کافر ہوجائے گا ''ان لوگوں نے کہا ہم لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ یہ حدیث تم سے سنیں، خدا کی قسم تمہیں اس طرح قتل کریں گے کہ آج تک اس طرح کسی کو قتل نہیں کیا ہے اور پھر فوراً ہی ان کے ہاتھ پیرکو باندھ دیا اوراس کی حاملہ بیوی کو کھجور کے درخت کے پاس لائے اس وقت ایک کھجور پیڑ سے گری اور خوارج میں سے ایک شخص نے اُسے منھ میں رکھ لیا فوراً ہی اس کے ہم خیالوں نے اعتراض کیا کہ لوگوں کے مال کو بغیر اجازت یا بغیر قیمت دیئے ہوئے کھارہے ہو؟ اس نے فوراً کھجور منھ سے نکال دی اور پھینک دیا! اوراسی طرح ایک سوّر جو ایک عیسائی کی تھی وہاں سے گزری جو کسی خوارج کے ایک تیر سے مرگئی اس وقت دوسروں نے اعتراض کیا کہ تمہارا یہ کام زمین پر فساد کرنا ہے لہٰذا اس کے مالک سے لوگوں نے اجازت طلب کی، اس وقت عبداللہ کو جنہیں باندھ رکھا تھا نہر کے کنارے لائے اور بکری کی طرح ذبح کردیا اورصرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا اور ان کے پیٹ کو چاک کرکے بچے کے سر کو بھی کاٹ دیا اور پھر بھی اتنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تین اور دوسری عورتوں کو قتل کردیا جس میں سے ایک صحابیہ تھیں جس کا نام ام سنان تھا۔(4)
مشہورمورخ مبرّد نے اپنی کتاب'' کامل'' میں عبداللہ کے دردناک قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب قاتل نے انہیں پکڑا توعبداللہ نے کہا : میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا ہے اسے زندہ کرو اورجس چیز کو مردہ کیا ہے اسے ماردو، پھرعبداللہ کی روایت نقل کرنے کے بعد اپنے باپ سے اور وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: خوارج نے کھجور کے مالک سے درخواست کی کہ اس کی قیمت لے لے، اس نے کہا کہ میں نے اس پیڑ کی کھجور کے استعمال کو تم لوگوں کے لئے معاف کردیا ہے لیکن ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اورکہا کہ تم کو اس کی قیمت لینا پڑے گی، اس عیسائی نے فریاد کی کہ تم لوگ مسلمان کا خون بہانے سے ڈرتے نہیں مگراس پیڑ کا پھل کھانے سے پرہیزکرتے ہو جب کہ اس کے مالک نے اجازت بھی دیدی ہے ؟! (5)
6۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام جب عبداللہ کے قتل سے باخبر ہوئے تو حارث بن مرّہ کو خوارج کی چھاؤنی بھیجا تاکہ واقعہ کی حقیقت معلوم کریں، جب حارث ان کے پاس پہنچے تاکہ واقعہ کا صحیح پتہ لگائیں توان لوگوں نے تمام اسلامی اور انسانی اصولوں کے برخلاف اسے بھی قتل کردیا۔ امام علیہ السلام پرسفیر کے قتل ہونے کی وجہ سے بہت اثرہوا اس موقع پر کچھ گروہ امام علیہ السلام کے پاس پہنچے اورکہا : کیا یہ صحیح ہے کہ ایسے خطروں کے باوجود ہم شام جائیں اور اپنے بچوں اور عورتوں کو ان کے پاس چھوڑدیں؟


سوال:


1- آخر کیا وجہ ہوئی کہ حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ سے جنگ کرنے کے بجائے خوارج سے جنگ کا ارادہ کیا۔؟


منابع:


1- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 2 ص 234
2- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی خطبہ 172
3- الامامة والسیاسة ج1 ص 132
4- الامامة والسیاسة ص136
5- الکامل ص 560، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج2  ص282

 
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: