مواد کا کوڈ۔: 70
ہٹس: 1812
تاریخ اشاعت : 30 September 2023 - 06: 15
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(31)
گھر کا محاصرہ کرنے کی وجہ سے خلیفہ نے اپنے کاموں کواہمیت دی اور محاصرہ ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگا لیکن وہ مخالفوں کی حقیقی شورش سے باخبر نہ تھا اورمعاشرے کے اچھے لوگوں کو برے لوگوں کے درمیان سے تشخیص نہیں دے پاتا تھا اس نے گمان کیا کہ شاید مغیرہ بن شعبہ یا عمروعاص کے وسیلے سے یہ ناگہانی بلا ٹل جائے گی۔

مخالفین کے سامنے خلیفہ کا تعہد


گھر کا محاصرہ کرنے کی وجہ سے خلیفہ نے اپنے کاموں کواہمیت دی اور محاصرہ ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگا لیکن وہ مخالفوں کی حقیقی شورش سے باخبر نہ تھا اورمعاشرے کے اچھے لوگوں کو برے لوگوں کے درمیان سے تشخیص نہیں دے پاتا تھا اس نے گمان کیا کہ شاید مغیرہ بن شعبہ یا عمروعاص کے وسیلے سے یہ ناگہانی بلا ٹل جائے گی،اس وجہ سے اس نے ان دونوں کو انقلاب کی آگ خاموش کرنے کے لئے گھر کے باہر بھیجا جب انقلابی لوگوں نے ان منحوس چہروں کو دیکھا توان کے خلاف نعرے لگانے لگے اور مغیرہ سے کہا: اے فاسق و فاجر واپس جا، واپس جا اورعمروعاص سے کہا: اے خدا کے دشمن واپس چلا جا کہ تو امین و ایماندار نہیں ہے اس وقت عمر کے بیٹے نے خلیفہ سے حضرت علی علیہ السلام کی موقعیت کے بارے میں بتایا اورکہا کہ صرف وہی اس حملے اورانقلاب کی آگ کو خاموش کرسکتے ہیں۔ اس بناء پر خلیفہ نے آپ سے درخواست کی کہ اس گروہ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر کی دعوت دیجئے امام  علیہ السلام نے اس کی درخواست کو اس شرط پر قبول کرلیا کہ میں اس کام کو انجام دوں گا مگر جن چیزوں کی میں ضمانت لوں گا خلیفہ اس پر عمل کرے، علی علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ اس کی طرف سے ضمانت لیں کہ خلیفہ کتاب خدا اور سنت پیغمبر پرعمل کرے گا، انقلابیوں نے حضرت علی علیہ السلام  کی ضمانت کی وجہ سے قبول کرلیا اوراس وقت آپ کے ساتھ عثمان کے پاس آئے اور اس کی سخت مذمت کی اس نے بھی ان لوگوں کی موافقت کو قبول کرلیا اور یہ طے پایا کہ عثمان تحریری طور پر تعہد دے لہٰذا تعہد نامہ اس طرح سے لکھا گیا:
 ''یہ خط خدا کے بندے امیرالمومنین عثمان کی طرف سے ان لوگوں کے نام ہے جن لوگوں نے اس پر تنقید و اعتراض کیا ہے خلیفہ نے یہ عہد کیا ہے کہ خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سنت پرعمل کریں گے، محروموں کی مدد کریں گے ڈرے اور سہمے افراد کو امان دیں گے، جلاوطن کئے ہوئے لوگوں کو ان کے وطن واپس کریں گے، اسلامی لشکر کو دشمنوں کی سرزمین پر نہیں روکیں گے، ...علی علیہ السلام مسلمانوں اور مومنوں کے حامی ہیں اورعثمان پر واجب ہے کہ اس تعہد پر عمل کرے۔
زبیر، طلحہ، سعد وقاص،عبد اللہ بن عمر، زید بن حارث، سہل بن حنیف اورابوایوب وغیرہ نے گواہ کے طور پر اس تعہد نامہ کے نیچے دستخط کیا یہ خط ذیقعدہ سن پینتیس ہجری قمری میں لکھا گیا اورہرایک گروہ نے اسی طرح کا خط لیا اور اپنے اپنے شہر واپس چلے گئے اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ ختم ہوگیا اور لوگ آزادانہ طور پر آنے جانے لگے۔
 جب یہ بات لوگوں نے خلیفہ کی زبان سے سنی تو مخالفین کی طرف سے اعتراض و تنقید ہونے لگی،سب نے اس کے سامنے فریاد شروع کردی کہ خدا سے ڈرو! توبہ کرو! اعتراض اتنا شدید تھا کہ خلیفہ نے دوسری مرتبہ پھر اپنی باتیں واپس لے لیں اور قبلہ کی طرف دونوں ہاتھ بلند کیا اورکہا: ''پروردگارا! میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیرے پاس واپس آؤں گا''(1)


انقلابیوں کو قتل کرنے کا حکم دینا


قریب تھا کہ مصریوں کی ناگہانی آفت ختم ہوجائے ، وہ لوگ مدینے سے مصر کی طرف روانہ ہوچکے تھے لیکن راستے میں ''ایلہ'' نامی مقام پر لوگوں نے عثمان کے غلام کو دیکھا کہ مصر کی طرف جارہا ہے ان لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید وہ عثمان کا خط لے کر مصرکے حاکم عبداللہ بن ابی سرح کے پاس جارہا ہے اسی وجہ سے اس کے سامان کی تلاشی لینے لگے اس کے پانی کے برتن میں سے رانگے (قلع) کا ایک پائپ نکلا جس کے اندر خط رکھا تھا خط میں حاکم مصر کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا جیسے ہی عمرو بن بدیل مصر میں داخل ہو فوراً اسے قتل کردینا اور کنانہ،عروہ اور ابی عدیس کے ہاتھوں کو کاٹ دینا اوراسی طرح خون میں تڑپتا ہوا چھوڑدینا اور پھر ان لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دینا۔ خط دیکھنے کے بعد مصری گروہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا اورسب کے سب آدھے ہی راستے سے مدینہ واپس آگئے اورعلی علیہ السلام سے ملاقات کی اورانہیں خط دکھایا ۔علی علیہ السلام خط لے کر عثمان کے گھر آئے اور اسے دکھایا عثمان نے قسم کھا کرکہا کہ یہ تحریراس کے کاتب کی اور مہر اسی کی ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہے،حقیقت میں بات یہی تھی کہ خلیفہ اس خط سے بالکل بے خبر تھا اور اس کے ساتھیوں مثلاً مروان بن حکم کا کام تھا خصوصاً خلیفہ کی مہرحمران بن ابان کے پاس تھی کہ اس کے بصرہ جانے کی وجہ سے مہر مروان کے پا س محفوظ تھی۔(2)
مصری گروہ نے خلیفہ کے گھر کا دوبارہ محاصرہ کیا اور اس سے ملاقات کرنے کو کہا اور جب لوگوں نے عثمان کو دیکھا تو ان سے پوچھا: کیا تم نے اس خط کو لکھا ہے؟ عثمان نے خدا کی قسم کھا کرکہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے، گروہ کے نمائندوں نے کہا: اگر ایسا خط تمہاری اطلاع کے بغیر لکھا گیا ہے تو تم خلافت اور مسلمانوں کے امورکی ذمہ داری لینے کے لائق نہیں ہو لہٰذا جتنی جلدی ہو خلافت سے کنارہ کشی اختیارکرلو، خلیفہ نے کہا کہ خدا نے جو لباس میرے بدن پر ڈالا ہے اسے میں ہرگزاتار نہیں سکتا، مصریوں کی جرأت نے بنی امیہ کو ناراض کردیا لیکن بجائے اس کے کہ اصلی علت کو بیان کریں، علی علیہ السلام کے علاوہ انہیں کوئی اورنظر نہیں آیا اور مصریوں کی طرف سے مقام خلافت پر جسارت کرنے کا الزام ان پر لگایا، امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو ڈرایا اور فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ اس وادی میں میرے پاس اونٹ نہیں ہے اور اس وقت فرمایا:
" أللّهمَ إنّی اُبَرِّئُ مِمّا یَقولونَ وَ مِن دَمِه وَ إن حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ۔" یعنی خدایا! میں ان لوگوں کی باتوں اورخلیفہ کے خون بہانے سے بیزاری کرتا ہوں اوراگر اتفاقاً ایسا ہوگیا تو معمولی سی ذمہ داری بھی میری نہ ہوگی۔
بہت سے قرینوں سے یہ بات واضح ہے کہ وہ خط مروان کے ہاتھوں یا اس کے حکم سے لکھا گیا تھا اس وجہ سے مصریوں نے خلیفہ سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ مروان کو ان کے سپرد کرے لیکن خلیفہ نے اس فسادی کو سپرد کرنے سے منع کردیا لہٰذا خلیفہ کے گھر کا محاصرہ اور بھی شدید کردیا گیا اور پانی لے جانے پر بھی پابندی لگادی گئی۔ خلیفہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: جتنی جلدی ہوسکے علی علیہ السلام کو خبر کردو کہ کچھ پانی دار الخلافہ تک پہنچوا دیں۔ امام علیہ السلام نے بنی ہاشم کی مدد سے تین مشک پانی خلیفہ کے گھر بھیجا پانی پہنچانے کے لئے بنی ہاشم اورمحاصرین کے درمیان جھگڑا ہوا جس کی وجہ کچھ بنی ہاشم زخمی ہوگئے لیکن پانی گھر کے اندر تک پہنچا دیا ۔


محاصرہ کے  ایام میں خلیفہ کا مختلف لوگوں کو خط بھیجنا  


عثمان نے محاصرہ کے ایام میں معاویہ کو خط لکھا کہ مدینے کے لوگ کافر ہوگئے ہیں اوربیعت کو توڑدیا ہے لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے اچھے جنگ کرنے والوں کو مدینہ روانہ کرولیکن معاویہ نے عثمان کے خط کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ میں پیغمبراسلام کے صحابیوں کی مخالفت نہیں کروں گا۔ خلیفہ نے مختلف خط یزید بن اسد بجلی کو شام اورعبد اللہ بن عامر کو بصرہ بھیجا اوراسی طرح حج کے موسم میں تمام حاجیوں کے نام لکھا اس سال حاجیوں کے سرپرست ابن عباس تھے لیکن کوئی بھی مؤثر ثابت نہ ہوا، کچھ لوگ خلیفہ کی مدد کے لئے گئے لیکن مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس کے قتل کی خبر سے آگاہ ہوگئے۔


مروان کی بری تدبیر کی وجہ سے عثمان کا قتل بہت جلدی ہوا


محاصرہ کرنے والوں کا ارادہ نہیں تھا کہ خلیفہ کے گھر پر حملہ کریں گے بلکہ ان لوگوں کی صرف یہ کوشش تھی کہ کھانا پانی گھر میں نہ پہنچے تاکہ خلیفہ اور اس کے ساتھی محاصرہ کرنے والوں کی درخواست قبول کرلیں لیکن مروان کی بری تدبیر یعنی اس نے حملہ کردیا اورمحاصرین میں سے ایک شخص یعنی عروہ لیثی کو اپنی تلوار سے قتل کر ڈالا اوریہی سبب بنا کہ تمام محاصرین خلیفہ کے گھر میں داخل ہوگئے ۔ اس اجتماعی ہجوم میں خلیفہ کے تین ساتھی عبد اللہ بن وہب، عبد اللہ اوف اورعبد اللہ بن عبدالرحمن مارے گئے۔ ہجوم کرنے والے عمرو بن حزم انصاری کے گھر سے دار الخلافہ پر چڑھے اور خلیفہ کے آنگن میں اتر گئے، گھر کے اندر عثمان کا غلام ناقل مالک اشتر اورعمرو بن عبید کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ بنی امیہ، جو خلیفہ اوراس کے ساتھیوں کی حفاظت کرنے والے تھے سب کے سب بھاگ گئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی ام حبیبہ (ابوسفیان کی بیٹی) نے ان لوگوں کو اپنے گھر میں چھپا لیا اسی لئے تاریخ میں یہ حادثہ ''یوم الدار'' کے نام سے مشہور ہے خلیفہ کا قتل محمد بن ابی بکر اور کنانہ بن بشر تجبیبی و سودان بن حمران مرادی و عمر و بن حمق اورعمیر بن صابی کے ہاتھوں ہوا۔ خلیفہ کے قتل کے وقت اس کی بیوی نائلہ نے اپنے کو اپنے شوہر کے زخمی بدن پر گرادیا جس کے نتیجے میں اس کی دو انگلیاں کٹ گئیں اورعثمان کا سرجدا ہونے سے بچا لیا لیکن ہجوم کرنے والوں کی تلواروں نے اس کا کام تمام کردیا اور کچھ لمحوں بعد بغیر روح کے اس کا بدن گھر کے گوشے میں گرپڑا۔


سوالات:


1- انقلابیوں کے سامنے خلیفہ کے تعہد کی کیا وجہ تھی۔؟
2- محاصرے کے دوران عثمان نے کن لوگوں کو خط لکھا اور خط کا مضمون کیا تھا ۔؟
3-انقلابی کیا شروع سے ہی عثمان کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔؟
4- عثمان کے قتل کا باعث کون ہوا اور کیوں۔؟


منابع:


1- تاریخ طبری ج3 ص 385
2- مروج الذہب ج2 ص 344

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: