مواد کا کوڈ۔: 79
ہٹس: 1811
تاریخ اشاعت : 11 October 2023 - 08: 52
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(40)
حضرت علی علیہ السلام نے حجر بن عدی کو چار ہزار فوج کا سردار بنایا اور اس کے لئےعلم باندھا، حجربن عدی روانہ ہوئے اور سرزمین '' سماوہ'' پہنچے اورمستقل ضحاک کی تلاش میں تھے یہاں تک کہ'' تدمر''کے علاقہ میں اس سے ملاقات ہوئی دونوں گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔

حجر بن عدی کو سردار بنا کر سرزمین سماوہ بھیجنا


حضرت علی علیہ السلام نے حجر بن عدی کو چار ہزار فوج کا سردار بنایا اور اس کے لئےعلم باندھا، حجربن عدی روانہ ہوئے اور سرزمین '' سماوہ'' پہنچے اورمستقل ضحاک کی تلاش میں تھے یہاں تک کہ'' تدمر''کے علاقہ میں اس سے ملاقات ہوئی دونوں گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی اور دشمن کی فوج کے انیس آدمی اورعلی علیہ السلام کے دو آدمی مارے گئے، ضحاک نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھایا اوربھاگ گیا اورصبح تک اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ ضحاک عراق سے بھاگنے کے بعد پیاس کی شدت سے جاں بلب ہوا کیونکہ جس اونٹ پر اس نے پانی رکھا تھا وہ راستے میں غائب ہوگیا اوربالآخر اس نے اطراف میں رہنے والوں سے پانی طلب کیا اور اپنی پیاس بجھائی۔
امام علیہ السلام نے ضحاک کی لوٹ مار وغارتگری پر ایک خطبہ دیا جس کا خلاصہ یہاں تحریرکررہے ہیں: اے وہ لوگوں جن کے جسم یکجا اورخواہشیں مختلف ہیں تمہاری باتیں سخت پتھروں کو نرم کردیتی ہیں مگر تمہاراعمل تمہارے بارے میں دشمنوں کو لالچ دلاتا ہے اپنی مجلس میں بیٹھ کرکہتے ہو کہ یہ کریں گے اور وہ کریں گے اور جب جنگ کا وقت آجائے تو کہتے ہو اے جنگ، دورہو، دور ہو۔ اپنا گھر چھن جانے کے بعد کس کے گھر کی حفاظت کروگے اورمیرے بعد کس امام کے ساتھ رہ کرجہاد کروگے ، خدا کی قسم جسے تم اپنے فریب میں مبتلا کرلو وہ دھوکہ میں ہے اورجو تمہارے ذریعہ کامیاب ہواس کے حصّے میں وہ تیرآتا ہے جو خالی ہو (جس کا کوئی انعام نہ ہو) اور جس نے تمہارے ذریعے تیرچلائے اس نے گویا شکستہ پیکان سے نشانہ لگایا اور پھر فرمایا: دشمن کے آدمی بھی تمہارے ہی جیسے مرد ہیں، کیا جانے بوجھے بغیر باتیں ہی باتیں رہیں گی اور خوف خدا سے بے نیاز ہوکر مدہوش ہی رہوگے اور اس چیزکی لالچ پیدا کرتے رہو گے جس کا استحقاق تم نے پیدا ہی نہیں کیاہے ''۔


2۔ بُسر کو حجاز ویمن بھیجنا


امام علیہ السلام کے زمانے میں سرزمین یمن دو حصوں میں تقسیم ہوگئی امام علیہ السلام نے یمن کے بعض حصے کی ذمہ داری کوعبیداللہ بن عباس کے سپرد کردی اور بقیہ حصّے یعنی جند کی ذمہ داری سعید بن نمران کے سپرد کی، یمن کے مرکزی علاقہ میں کچھ ایسے گروہ تھے جو عثمان اورعثمانیوں کے طریقوں کی پیروی کرتے تھے اورحضرت علی علیہ السلام کی حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا اور ہمیشہ دھوکہ وفریب اورفتنہ وفساد کی فکر میں تھے جب ان لوگوں کو خوارج کے حادثہ اورامام علیہ السلام کی فوج میں اختلاف کی خبر ملی تو مخالفت کرنے لگے یہاں تک کہ سعید بن نمران کو جند کے علاقہ سے باہر نکال دیا، ایک گروہ جو فکر کے اعتبار سے عثمانی نہ تھے وہ مالیات (ٹیکس) ادا نہ کرنے کہ وجہ سے فسادیوں کے ساتھ مل گئے ۔
سعید بن نمران اور عبیداللہ ابن عباس نے مخالفین کے تمام حالات امام علیہ السلام سے بیان کئے امام علیہ السلام نے کوفہ میں یمن کی ایک عظیم شخصیت یزید بن قیس ارحبی سے مشورہ کیا اور آخر میں یہ طے ہوا کہ فتنہ وفساد برپاکرنے والوں کو خط لکھیں اور ان لوگوں کو نصیحت کریں اور پھر دوبارہ مرکزی حکومت کی اطاعت وپیروی کے لئے دعوت دیں۔ لیکن مخالفین نے اطاعت وپیروی کو اس شرط پر قبول کرنے کا وعدہ کیا کہ امام عبیداللہ اورسعید کو نکال دیں اورادھر فساد کرنے والوں نے فرصت کو غنیمت جانا اورمعاویہ کو شعروشاعری کے ساتھ خط لکھا اوراس سے درخواست کی کہ اپنا نمائندہ صنعاء اور جند روانہ کرے تاکہ لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں اور اگراس کام میں تاخیر کی تو ہم لوگ مجبور ہیں کہ علی علیہ السلام اوران کے مشاوریزید ارحبی کی بیعت کرلیں ۔ جب فتنہ وفساد کرنے والوں کا خط معاویہ کو ملا تو اس نے ارادہ کیا کہ یمن اور حجاز میں قتل وغارت گری، بدامنی اور فساد کا ماحول پیدا کرے اسی وجہ سے اپنی فوج کے سب سے سنگدل سردار بُسربن ارطاۃ کو اپنے پاس بلایا اوراس سے کہا کہ تین ہزارکا لشکر لے کر حجاز اورمدینہ جاؤ اور راستے میں جہاں بھی پہنچنا وہاں اگر علی کے ماننے والے ہوں تو ان کی زبان کو علی کی برائی اور گالی کے لئے آمادہ کرو اوراس وقت سب کو میری بیعت کے لئے آمادہ کرنا اوربیعت کرنے والوں کو آزاد چھوڑدینا اورجو لوگ بیعت نہ کریں انہیں قتل کردینا اور جہاں بھی علی کے چاہنے والے ملیں انہیں قتل کردینا۔


بُسر کا سفر


بُسر تین ہزارلوگوں کے ساتھ شام سے روانہ ہوا اور جب مردان کے دیر(گرجا) کے پاس پہنچا تو اس میں سے چار سو لوگ بیماری کی وجہ سے مر گئے اوروہ چھبیس سو آدمیوں کے ساتھ حجاز کی طرف روانہ ہوگیا وہ جس آبادی سے بھی گزرتا لوگوں کے اونٹ کو زبردستی ان سے چھین لیتا اورخود اوراس کے فوجی اس پرسوار ہوجاتے تھے تاکہ دوسری آبادی میں پہنچ جائیں پھر وہاں ان اونٹوں کو چھوڑ دیتے تھے اور اس آبادی کے اونٹوں کو لے لیتے تھے اور اسی طرح سے اپنا طولانی سفر طے کیا یہاں تک کہ مدینہ پہنچا، بُسر نے مدینے میں قدم رکھتے ہی وہاں کے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اورعثمان کے قتل کا واقعہ چھیڑدیا اورکہا: تم سب عثمان کے قتل میں شریک تھے یا اس کی طرف سے بے توجہی اختیار کرکے اسے ذلیل و خوار کیا اورکہا: خدا کی قسم، ایسا کام کروں گا کہ عثمان کا پورا خاندان قلبی سکون محسوس کرے گا، پھر دھمکیاں دینا شروع کردیا اورلوگوں نے اس کے خوف کی وجہ سے حویطب بن عبد العزّی کے گھر میں پناہ لی جوکہ اس کی ماں کے شوہر کا گھر تھا (سوتیلے باپ کا) اور اس کے سمجھانے کی وجہ سے بُسر کا غصہ ٹھنڈا ہوا، اس وقت سب کو معاویہ کی بیعت کی دعوت دی کچھ گروہوں نے اس کی بیعت کی لیکن اس نے صرف اس گروہ کی بیعت پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مدینہ کی بڑی شخصیتوں کو جو فکری اعتبار سے معاویہ کے مخالف تھے یا عراق میں علی علیہ السلام کے بہت زیادہ قریبی تھے ان کے گھروں میں آگ لگادی، زرارہ بن حرون، رفاعہ بن رافع اور ابو ایوب انصاری کا گھر جل کر راکھ ہوگیا اور پھر بنی مسلم کے سرداروں کو بلایا اور ان سے پوچھا جابر بن عبداللہ کہاں ہے ؟ یااسے حاضر کرو یا اسے قتل کرنے کے لئے تیارہوجاؤ،اس وقت جابر نے پیغمبراسلام کی بیوی ام سلمہ کے گھر میں پناہ لی تھی اورجب ام سلمہ نے پوچھا کہ کیا سوچ رہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ اگر بیعت نہیں کروں گا تو قتل ہوجاؤں گا اور اگر بیعت کروں تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہوجاؤں گا لیکن'' الغارات'' کے نقل کرنے کے مطابق جابرنے ام سلمہ کے حکم کے مطابق بیعت کرلی ۔
جب بُسراپنی ذمہ داریوں کو مدینہ میں انجام دے چکا تو پھر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا اورتعجب یہ ہے کہ ابوہریرہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا۔
اس نے مدینہ سے مکہ جانے میں بہت سے گروہوں کوقتل کیا ان کے مال واسباب کو برباد کیا اورجب مکہ کے قریب پہنچا تو امام علیہ السلام کا سردار قُثم بن عباس مکہ سے باہرچلا گیا، بُسر نے مکہ میں قدم رکھتے ہی اپنے پروگرام کو جاری رکھا اور لوگوں کو گالی وفحش دینے لگا اورسب سے معاویہ کی بیعت لی اوران لوگوں کومعاویہ کی مخالفت کرنے سے منع کیا اورکہا اگرمعاویہ کی مخالفت کی خبرتم لوگوں کی طرف سے مجھ تک پہنچی توتمہاری نسلوں کو ختم کردیں گے اورتمہارے مال کو برباد اور تمہارے گھروں کو ویران کردیں گے۔ بُسر کچھ دن مکہ میں رہنے کے بعد طائف چلا گیا۔
بُسرنے اپنا کام انجام دینے کے بعد طائف کو چھوڑدیا اورعرب کے مشہور سیاستداں مغیرہ بن شعبہ نے اُسے کچھ دور آکررخصت کیا ، وہ یمن جاتے ہوئے راستے میں سرزمین '' بنی کنانہ '' پہنچا اوراسے خبر ملی کہ '' امام علیہ السلام کے سردار عبیداللہ بن عباس نے اپنے دوچھوٹے بچوں کوان کی ماں کے ساتھ صنعاء میں چھوڑدیا ہے، عبیداللہ نے اپنے بچوں کو بنی کنانہ کے ایک شخص کے سپرد کیا تھا وہ شخص ننگی تلوار لے کر شامیوں کے پاس آیا، بُسر نے اس سے کہا تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے، میں تمہیں قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا بلکہ میں عبیداللہ کے بچوں کو مانگ رہا ہوں، اس نے بُسر کو جواب دیا میں ان لوگوں کی راہ میں جو میری حمایت کرتے ہیں قتل ہونے کے لئے تیارہوں، یہ جملہ کہنے کے بعد شامیوں پرحملہ کیا اور بالآخر قتل ہوگیا، عبیداللہ کے چھوٹے بچوں کو پھانسی دینے کے لئے لایا گيا اور بہت ہی قساوت قلبی سے دونوں کو قتل کردیا گيا، بنی کنانہ کی ایک عورت نے فریاد بلند کی ، تم لوگ مردوں کو قتل کردو، بچوں نے کیا غلطی کی ہے؟ خدا کی قسم چھوٹے بچوں کو نہ جاہلیت کے زمانے میں اورنہ ہی اسلام کے زمانے میں قتل کیا گیا، خدا کی قسم وہ حکومت جو اپنی طاقت وقدرت بوڑھوں اور بچوں کو قتل کرکے ثابت کرتی ہے وہ بے کارہے، بُسر نے کہا خدا کی قسم ہمارا ارادہ تھا کہ عورتوں کو بھی قتل کریں اس عورت نے کہا میں خدا سے دعا کروں گی تو اس کام کو ضرورانجام دے۔
بُسرسرزمین کنانہ سے چلا گیا اور اپنے سفر کے درمیان نجران میں عبیداللہ بن عباس کے داماد عبداللہ بن عبد المدان کو بھی قتل کردیا اورکہا: اے نجران کے لوگوں اے عیسائیوں ( چونکہ نجران کے زيادہ تر افراد عیسائی تھے) خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کام کیا جس سے میں خوش نہ ہوؤں تو میں واپس آجاؤں گا اورایسا کام کروں گا کہ تمہاری نسلیں ختم ہوجائیں گی اورتمہاری کھیتیاں برباد اور تمہارے گھر ویران ہوجائیں گے،پھراپنے سفر پرروانہ ہوگیا اورراستے میں ابوکرب کہ جو امام علیہ السلام کے شیعوں اورہمدان کے بزرگوں میں سے تھا قتل کردیا اوربالآخر سرزمین صنعاء پہنچا، امام علیہ السلام کے سرداروں عبیداللہ بن عباس اورسعید بن نمران نے شہر کو چھوڑدیا اورعمروثقفی کو اپنا جانشین بنا دیا تھاعبیداللہ کے جانشین نے کچھ دیر تک مقابلہ کیا لیکن قتل ہوگیا ، بُسر بے رحم شہر میں داخل ہوگیا اور بعض لوگوں کو قتل کرڈالا یہاں تک کہ وہ گروہ جو ''مآرب'' سے اس کی طرف آیا صرف ایک آدمی کے علاوہ سب کو قتل کردیا اور وہ شخص مآرب واپس چلا گیا اور کہا: میں ضعیفوں اور جوانوں کو باخبر کردوں گا کہ تمہاری موت تمہارا تعاقب کررہی ہے ۔
بُسر ،صنعاء سے ''حبشیان '' نامی علاقے کی طرف گیا اس علاقے کے سبھی لوگ امام علیہ السلام کے شیعہ تھے بُسر اوران کے درمیان جنگ شروع ہوئی اوربالآخر بہت زیادہ بربادی کے وقت مغلوب اوراسیر ہوگئے اور بہت ہی درد ناک طریقے سے قتل ہوئے ، وہ دوبارہ صنعاء واپس گیا اور سو آدمیوں کو اس جرم میں قتل کیا کہ ان کی عورتوں نے عبیداللہ بن عباس کے بچوں کو پناہ دی تھی، یہ بُسر بن ارطاة کے ظلم وستم کا بدترین ورق تھا جسے تاریخ نے اپنے دامن میں تحریرکیا ہے ۔
جب بُسر کے ظلم وستم کی خبرحضرت علی علیہ السلام کو ملی تو آپ نے اپنے بہترین سردار، جاریہ بن قدامہ کو دو ہزار کا لشکر دے کر بُسر کے ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کے لئے حجاز روانہ کیا، وہ بصرہ کی طرف سے حجاز گئے اور یمن پہنچے اور بُسر کا پیچھا کررہے تھے یہاں تک کہ خبر ملی کہ وہ سرزمین '' بنی تمیم'' پر ہے جب بُسربن ارطاۃ جاریہ کی آمد سے باخبر ہوا تو ثمامہ کی طرف چلا گیا جب لوگوں کو جاریہ کی آمد کی خبرہوئی تو بُسر کے راستے میں مشکلات کھڑی کردی لیکن وہ کسی طرح سے اپنی جان بچا کر شام پہنچ گیا اور اپنے سفر کی مکمل روداد معاویہ سے بیان کی۔ '' اس نے کہا کہ میں نے سفر کے آمد ورفت میں تمہارے دشمنوں کو قتل کردیا، معاویہ نے کہا تونے یہ کام نہیں کیا ہے بلکہ خدا نے کیا ہے !۔
تاریخ نے لکھا ہے کہ بُسر نے اس سفر میں تیس ہزار لوگوں کو قتل کیا اور کچھ گروہوں کو آگ میں جلا دیا۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ اس پر لعنت و ملامت کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ خدایا اُسے موت نہ دینا جب تک اس کی عقل اس سے چھین نہ لینا ۔امام علیہ السلام نے بسر کا پورا واقعہ نہج البلاغہ خطبہ نمبر پچیس(1) میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ہم یہاں پر اختصار کے پیش نظراسے بیان نہیں کررہے ہیں قارئين محترم نہج البلاغہ کے اس خطبے کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔


منابع:


1- نہج البلاغہ خطبہ نمبر 25
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: