مواد کا کوڈ۔: 74
ہٹس: 1859
تاریخ اشاعت : 06 October 2023 - 22: 17
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (35)
صلح نامہ سلسلے میں دونوں طرف کا اختلاف امام علیہ السلام کے سکوت کرنے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پرعمل کرنے سے ختم ہوا اورعلی علیہ السلام نے اجازت دی کہ ان کا نام بغیر لقب امیر المومنین کے لکھا جائے اور صلح نامہ لکھا جانے لگا۔

صلح نامہ کی عبارت        

                                            
 اس سلسلے میں دونوں طرف کا اختلاف امام علیہ السلام کے سکوت کرنے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پرعمل کرنے سے ختم ہوا اورعلی علیہ السلام نے اجازت دی کہ ان کا نام بغیر لقب امیر المومنین کے لکھا جائے اور صلح نامہ لکھا جانے لگا جس کے اہم موارد یہ ہیں:
1۔ دونوں گروہ اس بات پرراضی ہوئے کہ قرآن کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور اس کے حکم پرعمل کرنے سے تجاوزنہ کریں اورقرآن کریم کے علاوہ انہیں کوئی چیز متحد نہ کرے اورخدا کی کتاب شروع سے آخر تک ہر اختلافی مسئلے میں حاکم کے طور پرہو۔
2۔ علی اوران کی پیروی کرنے والوں نے عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری) کو ناظر و حاکم کے عنوان سے چنا ہے اورمعاویہ اور اس کی پیروی کرنے والوں نے عمروعاص کو اس عنوان سے منتخب کیا ہے۔
3۔ دونوں آدمیوں سے خدا نے جو سب سے بڑا عہد لیا ہے وہ میثاق وعہد ہے کہ خدا کی کتاب کو اپنا پیشوا قراردیں اوراگر اس نے فیصلہ کردیا تواس سے آگے نہ بڑھیں اوراگر جہاں وہ فیصلہ نہ کرسکے وہاں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وسنت کی طرف رجوع کریں اوراختلاف سے پرہیز کریں اورخواہشات کی پیروی نہ کریں اور مشتبہ کاموں میں دخالت نہ کریں ۔
 4۔ عبداللہ بن قیس اورعمروعاص میں سے ہر ایک نے اپنے پیشوا و رہبر سے الٰہی عہد لیا کہ یہ دونوں جو بھی قرآن اور سنت کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے راضی ہوں اور اسے توڑے نہیں اور نہ ان کے علاوہ کسی کو چنیں اوران لوگوں کی جان ومال و عزت و آبرو اگر حق سے تجاوز نہ کریں تو محترم ہے۔
5۔ اگردونوں حاکموں سے کوئی ایک حاکم اپنے وظیفے کوانجام دینے سے پہلے مرجائے تو اس گروہ کا امام ایک عادل شخص کو اس کی جگہ پرمعین کرے گا انہیں شرائط کے ساتھ جس طرح سے اس کو معین کیا گیا تھا اوراگر دونوں پیشوا ورہبر میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنے سے پہلے مرجائے تو اس کے ماننے والے کسی کو بھی اس جگہ پر معین کرسکتے ہیں ۔
 6- دونوں حاکموں سے یہ عہد لیا گيا کہ تلاش وکوشش میں غفلت نہ برتیں اورغلط فیصلہ نہ کریں اوراگر اپنے تعھد پرعمل نہ کریں تو اس عہد نامہ پر امیروں اور امت کے داوروں کوعمل کرنا لازم و واجب ہے اور اس کے بعد سے اس عہد نامہ کی مدت ختم ہونے تک لوگوں کی جان و مال اورعزت وآبرو سب محفوظ ہے اور تمام اسلحے رکھ دیئے جائیں اور امن وامان کا ماحول پیدا کیا جائے اور اس سلسلے میں اس واقعہ میں حاضر رہنے والوں اور غائب رہنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
7۔ دونوں حاکموں پر لازم ہے کہ عراق وشام کے درمیان ٹھہریں اوروہاں ان کے دوست واحباب کےعلاوہ کوئی اورنہ جائے اور ان کو ماہ رمضان المبارک کے آخرتک مہلت ہے کہ فیصلہ کو تمام کریں اور اگر چاہیں تو اس سے پہلے بھی فیصلہ کرسکتے ہیں اور اسی طرح اگر وہ لوگ چاہیں تو فیصلہ کو حج کے مراسم ہونے تک تاخیر کرسکتے ہیں ۔
8۔ اگر دونوں حاکم قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو مسلمان اپنی جنگ کو جاری رکھیں گے اور پھر دونوں فوجوں کے درمیان کوئی عہد و پیمان نہ ہوگا اور امت اسلامی کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز اس میں تحریر ہے اس پر عمل کریں اور اگر کوئی زبردستی کرناچاہے یا اس صلح کو توڑنے کا ارادہ کرے تو امت مسلمہ کو اور متحد ہونا چاہیے۔(1)
مشہور اہل سنت مورخ علامہ طبری کے نقل کے مطابق اس وقت دونوں طرف سے دس لوگوں نے حکمیت کے صلح نامہ کے عنوان سے اپنے دستخط کئے، امام علیہ السلام کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں عبداللہ بن عباس، اشعث بن قیس، مالک اشتر، سعید بن قیس ہمدانی، خیّاب بن ارّت، سہل بن حنیف، عمرو بن الحمق الخزاعی اور امام علیہ السلام کے بیٹے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام تھے۔(2)
صلح نامہ سترہ صفرسنہ سینتیس ہجری بروز بدھ عصر کے وقت لکھا گیا تھا اور دونوں طرف کے لوگوں نے دستخط کئے تھے (3) دونوں طرف کے حاکموں نے ارادہ کیا کہ سرزمین '' اذرح '' (شام وحجاز کے درمیان کی سرحدی جگہ) میں جمع ہوں اور وہاں پر قضاوت کریں اور دونوں طرف سے چار سو لوگ ناظر کے عنوان سے اعزام ہوں اور فیصلہ پر نگاہ رکھیں ۔


امام علیہ السلام کی فوج میں حکمیت کے صلح نامہ کا عکس العمل


صلح نامہ لکھے جانے کے بعد طے یہ پایا کہ شام اورعراق کے لوگ بھی اس گفتگو کے نتیجے سے باخبرہوں، اس وجہ سے اشعث نے عراقیوں اور شامیوں کے درمیان حکمیت کے صلح نامہ کو پڑھ کرسنایا پہلی مرتبہ کسی نے بھی کوئی مخالفت نہیں کی جب کہ عراقی فرقہ کے کچھ لوگوں نے مثلاً '' عنزہ'' وغیرہ نے مخالفت کی اور پہلی مرتبہ دو عنزی، معدان اور جعد کے منھ سے یہ نعرہ نکلا '' لا حکم الا اللّٰہ ''اور دونوں جوانوں نے تلواریں کھینچی اور معاویہ کی فوج پر حملہ کردیا اور معاویہ کے خیمے کے پاس مارے گئے اور جب اس صلح نامہ کو قبیلہ مراد کے سامنے پڑھا گیا تو اس قبیلے کے رئیس '' صالح بن شفیق '' نے ان جوانوں کے نعرے کو لگایا اور کہا '' لا حکم الا اللّٰہ ولوکرہ المشرکون'' لیکن زیادہ وقت نہ گزراتھا کہ چاروں طرف سے ''لا حکم الا اللّٰہ ، والحکم للّٰہ یا علیُّ لاٰ لکَ''کا نعرہ بلند ہوگیا اور لوگ فریاد کرنے لگے ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے دین خدا میں لوگ حاکم ہوں اور حکم خدا کو بدل ڈالیں ، حکمیت کا واقعہ ایک لغزش تھی جو ہم سے ہوگئی اور ہم لوگ اس سے پھر گئے اور توبہ کرلیا تم بھی اس سے منھ موڑ لو اور توبہ کرلو اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو ہم تم سے بیزار رہیں گے۔(4)
چوتھا دباؤ
امام علیہ السلام کے نادان اور بے وقوف ساتھی اس مرتبہ چوتھے دباؤ میں تھے اور وہ یہ کہ امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اسی دن حکمیت کے صلح نامہ کو نظر اندازکردیتے اوراسے معتبر نہ جانتے لیکن اس مرتبہ امام علیہ السلام نے زبردست مقابلہ کیا اور ان لوگوں کے سامنے فریاد بلند کی:
" وَ یَحکُمُ أبَعدَ الرِّضا والمیثاقَ وَ العَهدَ نَرجِعُ؟ ألَیسَ الله تَعالی قَدقالَ أوفُوا بِالعُقُودِ(5)وَ قال وَ أوفوُا بِعهدِ اللهِ إذا عاهَدتُم وَ لاتَنقُضُوا الاَیمانَ بَعدَ تَوکیدَها وَ قَد جَعَلتُمُ الله عَلَیکُم کَفیلاً إنَّ الله یَعلَمُ ما تَفعَلُونَ (6)،(7)
'' لعنت ہو تم پراب اس وقت یہ باتیں کررہے ہو؟ اس وقت جب کہ راضی ہوگئے ہیں اور عہد کرلیا ہے دو مرتبہ جنگ سے واپس آگئے ہیں؟ کیا خدا کا فرمان نہیں ہے کہ '' اپنے وعدوں کی وفا کرو'' اور پھر خدا فرماتا ہے: خدا کے عہد وپیمان پر جب کہ تم نے عہد کرلیا ہے تو وفا کرو اور قسم کھانے کے بعد اسے توڑو نہیں اورجب کہ اپنے کاموں پر خدا کو ضامن قرار دیا ہے اور خدا جو کچھ انجام دیتا ہے اس سے باخبرہے۔"
لیکن امام علیہ السلام کا کلام ان لوگوں پر اثر انداز نہ ہوا اورامام علیہ السلام کی پیروی سے منھ پھیرلیا اورحکمیت کے مسئلےکوگمراہی قراردیا اورامام علیہ السلام سے بیزاری کیا اور تاریخ میں''خوارج''یا ''محکمہ''کے نام سے مشہورہوگئے اور تمام اسلامی گروہوں میں سب سے زیادہ خطرناک گروہ ثابت ہوئے۔                               
  ان لوگوں نے پوری تاریخ میں کوئی بھی حکومت نہیں بنائی اورخود اپنے لئے فکر اور خاص طریقہ و راستہ اپنایا ہم ''مارقین''کی بحث میں تفصیلی طور پر ان لوگوں کی فکری غلطیوں کے بارے میں ذکر کریں گے اور یہ بھی ذکر کریں گے کہ حکمیت کے مسئلہ میں، مسئلہ حاکمیت رجال دین الٰہی میں نہیں تھا بلکہ حاکمیت قرآن اور سنت پیغمبر سے مراد دو گروہ کے درمیان اختلاف تھا اور یہ حاکمیت بہت عمدہ اور صحیح جگہ پر تھی اگرچہ اس کا عنوان ایسے شرائط میں عمروعاص کی طرف سے دھوکہ اور فریب کے ساتھ تھا ۔
امام علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ''إِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ وَ إِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْآنَ وَ هَذَا الْقُرْآنُ إِنَّمَا هُوَ خَطٌّ مَسْطُورٌ بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ لَا يَنْطِقُ بِلِسَانٍ وَ لَا بُدَّ لَهُ مِنْ تَرْجُمَانٍ وَ إِنَّمَا يَنْطِقُ عَنْهُ الرِّجَالُ وَ لَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ إلَى أَنْ نُحَكِّمَ بَيْنَنَا الْقُرْآنَ لَمْ نَكُنِ الْفَرِيقَ الْمُتَوَلِّيَ عَنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَ قَدْ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ‏ فَرَدُّهُ إِلَى اللَّهِ أَنْ نَحْكُمَ بِكِتَابِهِ وَ رَدُّهُ إِلَى الرَّسُولِ أَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّتِهِ ۔ '' ہم نے لوگوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حکم مقرر کیا تھا اور یہ دفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے جو زبان سے نہیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ہے اوروہ ترجمان آدمی ہی ہوتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ہیں ،جو قوم (اہل شام)نے ہم سے خواہش کی ہم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ہوجاتے حالانکہ خداوند  عالم فرماتا ہے کہ اگر تم کسی بات میں اختلاف کرنے لگو تو خدا اور رسول کی طرف اسے پھیر دو، خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کتاب کو حَکم مانیں اوررسول کی طرف رجوع کرنے کے معنی ہیں کہ ہم ان کی سنت پر چلیں۔"(8)
امام علیہ السلام کا اس خطبہ کے ساتھ ایک اور جملہ بھی ہے جو توجہ کے لائق ہے امام فرماتے ہیں۔'' فَإِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ بِهِ وَ إِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ فَنَحْنُ أَوْلَاهُمْ بِهِ ۔'' اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے سب سے زیادہ ہم حق دار ہیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ہم سب سے زیادہ اس کے اہل ہیں ۔
جی ہاں ! بالآخر جنگ صفین کے دنوں میں کئی مہینے تک امام علیہ السلام کا قیمتی وقت لیا گیا اورعراق کی فوج کے بیس سے پچیس ہزار تک لوگ شہید ہوئے اور پینتالیس ہزار اور ایک قول کی بنیاد پرنوے ہزار فوج شام کے لوگ مارے گئے اور دونوں فوج ایک دوسرے سے دور ہوگئی اورلوگ اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے(9)


سوال:


1- کن افراد کو خوارج کہا جاتا ہے۔؟


منابع:


1- مروج الذھب ج2 ص 403، تاریخ طبری ج3  جزء6 ص 29، الاخبار الطوال ص 195
2- تاریخ طبری ج3 جزء ص 30، وقعہ صفین ص 510، کامل ابن اثیرج3 ص162 
3- کامل ابن اثیر ج3 ص 163
4- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج2 ص 237، وقعہ صفین ص513   
5- سورہ مائدہ آیت 1
6- سورہ نحل آیت 91
7- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج2 ص 238
8- نہج البلاغہ خطبہ 125، طبری نے اپنی تاریخ ج ٣ جزء6 ص37میں سینتیس ہجری کے واقعات کو ذکرکیا ہے، ابن اثیر نے اپنی کتاب کامل ج 3 ص 166 اور اس واقعہ کو نہج البلاغہ میں مختصر طریقے سے لکھا ہے، سبط بن جوزی نے کتاب تذکرہ ص١٠٠ میں ہشام کلبی سے شیخ مفید نے ارشاد میں ص 129 ، طبری نے احتجاج ج1 ص 275 وغیرہ نے اس خطبہ کو نقل کیا ہے ۔
9- وقعۃ صفین ص 518

 
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: