مواد کا کوڈ۔: 73
ہٹس: 1805
تاریخ اشاعت : 05 October 2023 - 22: 10
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (34)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن گفتگو نہیں کرتا بلکہ ضروری ہے کہ قرآن پرعبور رکھنے والے اسے گفتگو کرائیں اوراس میں غورو فکر کریں اور خداوندعالم کے حکم کو تلاش کریں تاکہ کینہ و دشمنی سے دوری اختیارکریں اوراس ہدف تک پہنچنے کے لئے یہ طے پایا کہ شامیوں میں سے اورعراقیوں میں سے کچھ لوگ معین ہوں۔

حکمین کا انتخاب


 اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن گفتگو نہیں کرتا بلکہ ضروری ہے کہ قرآن پرعبور رکھنے والے اسے گفتگو کرائیں اوراس میں غورو فکر کریں اور خداوندعالم کے حکم کو تلاش کریں تاکہ کینہ و دشمنی سے دوری اختیارکریں اوراس ہدف تک پہنچنے کے لئے یہ طے پایا کہ شامیوں میں سے اورعراقیوں میں سے کچھ لوگ معین ہوں، شام کے لوگ بغیر کسی قید و شرط کے معاویہ کے پیروتھے کہ وہ جس کو بھی منتخب کرتا اسے ووٹ دیتے اور سب لوگ جانتے تھے کہ وہ فتنہ و فساد کا موجد عمروعاص کے علاوہ کسی کو منتخب نہیں کرے گا، مشہور قول کی بناء پر شام کے لوگ معاویہ کے لئے کہ جو مخلوق ہے کے لئے سب سے زیادہ فرماں بردار اور خدا کے لئے سب گناہ گار افراد تھے لیکن جب امام علیہ السلام کی باری آئی تو دباؤ ڈالنے والوں نے (جنہوں نے بعد میں اپنا نام خوارج رکھا اور حکمیت کے مسئلے کو گناہ کبیرہ سمجھا اورخود اسے قبول کرنے سے توبہ کرلی اور علی علیہ السلام سے بھی خواہش کی کہ توبہ کریں)دوچیز کے لئے حضرت پر دباؤ ڈالا۔
 1۔ حکمیت کو قبول کریں۔
2۔ اپنے اعتبار سے حکم کا انتخاب، نہ کہ امام علیہ السلام کی نظر کے مطابق،تاریخ اسلام کے اس حصہ کو جو واقعا درس عبرت ہے،ہم اسے عمدہ انداز سے تحریر کر رہے ہیں۔
 دباؤ ڈالنے والوں نے کہا: ہم ابوموسیٰ اشعری کو حکمیت کے لئے منتخب کر رہے ہیں۔
امام علیہ السلام  نے فرمایا: میں ہرگز اس کام پر راضی نہیں ہوں اور ہرگز اسے یہ حق نہیں دوں گا۔
دباؤ ڈالنے والوں نے کہا: ہم بھی اس کے علاوہ کسی کو منتخب نہیں کریں گے یہ وہی تھا جس نے ابتداء سے ہی اس جنگ سے منع کیا اور اسے فتنہ قرار دیا۔
 امام علیہ السلام نے فرمایا: ابوموسیٰ اشعری وہ شخص ہے جو خلافت کے پہلے ہی دن مجھ سے جدا ہوگیا اورلوگوں کو میری مدد کرنے سے منع کیا اوراپنی برائی کی وجہ سے بھاگ گیا یہاں تک کہ اسے امان دیا اور پھر میری طرف واپس آگیا، میں ابن عباس کو حاکم کے طور پر منتخب کر رہا ہوں۔
دباؤ ڈالنے والوں نے کہا: ہمارے لئے تمہارے اورابن عباس میں کوئی فرق نہیں ہے، ایسے شخص کو منتخب کرو کہ جو تمہارے اور معاویہ کی طرح مساوی ہو۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: مالک اشتر کو اس کام کے لئے منتخب کروں گا۔
دباؤ ڈالنے والے گروہ نے کہا:مالک اشتر نے جنگ کی آگ کو بھڑکایا ہے اور اس وقت ہم لوگ انہیں کے حکم سے مجرم ہیں۔
 امام علیہ السلام نے فرمایا: مالک اشتر کا کیا حکم ہے؟
دباؤ ڈالنے والے گروہ نے کہا: وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کی جان لے لے تاکہ اپنی اور تمہاری خواہش کوانجام دے۔
 امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر معاویہ حاکم کے انتخاب میں مکمل طریقے سے آزاد ہے تو قرشی (عمروعاص) کے مقابلے سوائے قرشی(عبد اللہ ابن عباس)کے کوئی اورمناسب نہیں ہے تم لوگ بھی اس کے مقابلے میں عبد اللہ بن عباس کو منتخب کرو، کیونکہ عاص کا بیٹا کوئی گرہ نہیں باندھتا مگر یہ کہ ابن عباس اسے کھول دیں یا گرہ کو نہیں کھولتا مگر یہ کہ اسے باندھ دیتا ہے کسی چیز کو وہ مضبوط و محکم نہیں کرتا مگر یہ کہ ابن عباس اسے سست کردے اور کسی کام کو سست نہیں کرتا مگر یہ کہ اسے محکم کردے۔
اشعث نے کہا:عمروعاص اورعبد اللہ بن عباس دونوں قبیلہ مضَر سے ہیں اوردومضَری ایک ساتھ فیصلے کے لئے مناسب نہیں ہے کہ بیٹھیں،اگرایک مضَری ہو(مثلاًعمرو عاص) توضروری ہے کہ حتماً دوسرا یمنی (ابو موسیٰ اشعری) ہو۔ (کسی نے اس شخص (اشعث) سے نہ پوچھا کہ اس قانون پر تمہارے پا س کیا دلیل ہے۔؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تمہارا یمنی دھوکہ نہ کھا جائے کیونکہ عمروعاص ایسا شخص ہے جو اپنے مقصد کو پورا کرنے میں کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتا۔
 اشعث نے کہا: خدا کی قسم جب بھی ان دو حکم میں سے ایک یمنی ہوگا تو یہ میرے لئے بہترہے اگر چہ وہ ہماری خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کرے اورجب بھی دونوں مضَری ہوں گے تو ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گے اگرچہ وہ ہمارے اعتبار سے فیصلہ کریں۔
 امام علیہ السلام نے فرمایا : اس وقت تم لوگ ابوموسیٰ اشعری کے لئے اصرار کررہے ہو تو تم خود ذمہ دار ہو جو تمہارا دل چلے انجام دو۔ (1)


حکمیت کے عہد و پیمان کا بوجھ


سرزمین صفین پرحکمیت کا حادثہ تاریخ اسلام کا بے نظیر واقعہ شمار ہوتا ہے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام جو فتح و کامیابی سے دو قدم فاصلے پرتھے اوراگر آپ کے بے خبر اور نادان ساتھی آپ کی حمایت سے منھ نہ موڑتے یا کم سے کم ان کے لئے زحمت کا باعث نہ بنتے تو فتنے کی آنکھ کو اس کے ڈھیلے سے نکال لیتے اور بنی امیہ کی خبیث حکومت کہ جو بعد میں ٨٠ سال یا اس کچھ زیادہ طولانی ہوئی اسے ختم کردیتے اورتاریخ اسلام اورمسلمانوں کے تمدن کو تبدیل کردیتےاورعمروعاص کی چالاکی کی وجہ اور بعض لوگوں کے دھوکہ کھانے اور اپنے نادان سپاہیوں کی توجہ کو جنگ جاری رکھنے اور کامیابی پر پہنچنے سے روک دیتے۔
یہ نادان دوست جن سے نقصان دانا دشمنوں سے زیادہ ہے چار چیزوں کا امام علیہ السلام پردباؤ ڈالاکہ جس کا دھواں پہلے ان کی آنکھوں میں پھر تمام مسلمانوں کی آنکھوں میں گیا وہ چیزیں یہ ہیں۔
1۔ آگ کا قبول کرنا اور قرآن اور سنت پیغمبر کی حکمیت قبول کرنا۔
2۔ ابو موسیٰ اشعری کو امام علیہ السلام کے نمائندہ کے طور پر چُننا۔
3۔ حکمیت کے عہد و پیمان سے لقب ''امیر المومنین''خدف کرنا۔
4۔ حکمیت کے عہد کو دستخط کے بعد توڑنے پر اصرار۔
گزشتہ بحثوں میں دوسرے اورتیسرے دباؤ کے طریقے کو واضح کیا ہے اب تیسرے اور چوتھے دباؤ کے طریقے اور صلح نامہ کی عبارت سے آشنا ہوں۔
جنگ کا گرد وغبار ختم اورقرآن کو نیزہ پر بلند کرنے کے بعد زبانی تکرار ہوگئی اور یہ طے پایا کہ دونوں فوج کے سردار حکمیت کے عہد و پیمان کو منظم کریں ایک طرف امام علیہ السلام اورآپ کے ساتھی، دوسری طرف معاویہ اوراس کی عقل یعنی عمرو عاص اوراس کی حفاظت کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معین ہوئے۔ عہد نامہ لکھنے کے لئے دو زرد ورق جس کے شروع اور آخر میں امام علیہ السلام کی مہر کہ''محمد رسول اللہ تھی" اور معاویہ کی مہر کہ وہ بھی ''محمد رسول اللہ تھی" اس پر لگی تھی امام علیہ السلام نے صلح نامہ کی عبارت لکھوائی اور آپ کے کاتب عبید اللہ بن رافع نے صلح نامہ لکھنے کی ذمہ داری سنبھالی امام علیہ السلام نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:
" بِسمِ الله الرَّحمنِ الرَّحیمِ هذا مَا تَقاضی عَلیه علیّ أمیرُالمُؤمِنینَ وَ مُعاویةُ بن أبی سُفیان و شیعَتُهُما فیما تَراضَیا بِه مِن الحُکمِ بِکتابِ الله وَ سُنَّةِ نَبیِّه۔"
" یہ ایک ایسا بیان ہے کہ علی امیرالمومنین اورمعاویہ اور دونوں کہ پیروی کرنے والوں نے کتاب خدا اور پیغمبراسلام کی سنت کے فیصلے کو قبول کیا ہے۔
اس وقت معاویہ اپنی جگہ سے خوشی سے اُچھل پڑا اورکہا وہ انسان بہت برا ہے جو کسی کو''امیرالمومنین'' کےعنوان سےقبول کرےاورپھراس سے جنگ کرے، عمروعاص نے فوراً امام علیہ السلام کے کاتب سے کہا: علی اوران کے باپ کا نام لکھو وہ تمہارا امیر ہے نہ کہ ہمارا امیر، احنف امام علیہ السلام کے بہادرسردار نے امام سے کہا آپ اپنے نام کے ساتھ اپنے لقب امیرالمومنین کو حذف نہ کیجیۓ میں ڈررہا ہوں کہ دوبارہ یہ لقب آپ تک نہ پہنچ سکے اس کی طرف زیادہ دھیان نہ دیجیۓ چاہے جنگ و جدال ہی کیوں نہ ہو، گفتگو طولانی ہوگئی اوردن کا کچھ حصہ اسی گفتگو میں گزرگیا اورامام علیہ السلام اپنے نام کے ساتھ امیرالمومنین حذف کرنے کے لئے راضی نہ ہوئے، اشعث بن قیس، جاسوس، جو پہلے ہی دن دوستی کا لباس پہن کر امام علیہ السلام کی مخالفت میں کام کررہا تھا اورمعاویہ سے راز و نیاز کرتا تھا اس نے بہت اصرار کیا کہ لقب حذف کردیا جائے۔
ایسے اضطراب کے عالم میں امام علیہ السلام نے تلخ واقعہ''صلح حدیبیہ'' کو بیان کیا اور فرمایا: میں حدیبیہ کی سر زمین میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کاتب تھا ایک طرف خدا کا پیغمبراوردوسری طرف سہیل بن عمرو کے مشرکین جمع تھے میں نے صلح نامہ کو اس طرح سے منظم کیا '' هذا ما تَصالَحَ عَلَیهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله وَ سَهلُ بنِ عَمرو'' لیکن مشرکین کے نمائندے نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے کہا، میں ہرگز ایسے خط پردستخط نہیں کروں گا جس میں تم اپنے کو''خدا کا پیغمبر'' لکھو گے لیکن اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم خدا کے نبی ہو تو ہرگز تم سے جنگ نہیں کرتا، میرا ظالم و ستمگر میں شمار ہو کہ تمہیں خدا کے گھر کے طواف سے روک دوں جب کہ تم خدا کے پیغمبر ہیں لیکن تم یہ لکھو،''محمد بن عبد اللہ'' تاکہ میں اسے قبول کرلوں۔
اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: علی، میں خدا کا نبی ہوں جس طرح سے کہ عبد اللہ کا بیٹا ہوں ہرگز میری رسالت کا عنوان''رسول اللہ'' میرے نام سے حذف ہونے سے ختم نہیں ہوگا، لکھو، محمد بن عبداللہ ہاں۔ اس دن مشرکوں نے مجھ بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ ''رسول اللہ'' کا لقب ان کے نام کے آگے سے ہٹا دوں۔ اگر اس دن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صلح نامہ مشرکوں کے لئے لکھا تو آج میں ان کے فرزندوں کے لئے لکھ رہا ہوں میرا اور پیغمبرخدا کا طور طریقہ ایک ہی ہے۔
عمروعاص نے علی علیہ السلام سے کہا سبحان اللہ ہم لوگوں کو کافروں سے تشبہیہ دے رہے ہیں جب کہ ہم لوگ مومن ہیں، امام علی السلام نے فرمایا: کونسا ایسا دن تھا کہ تو کافروں کا حامی اور مسلمانوں کا دشمن نہ تھا تو اپنی ماں کی طرح ہے جس نے تجھے پیدا کیا ہے یہ سننے کے بعد عمروعاص وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اور کہا خدا کی قسم اس کے بعد کبھی بھی تمھارے ساتھ جلسہ میں نہیں بیٹھوں گا۔
امام علیہ السلام کے دوست نما لوگوں کے اصرار نے کہ " امیرالمومنین" لقب کو اپنے نام کے پاس نہ لکھیں امام علیہ السلام کی مظلومیت کواوربھی بڑھا دیا۔(2) لیکن امام علیہ السلام کے کچھ سچے اور حقیقی ساتھی تلواریں کھینچے ہوئے امام علیہ السلام  کے پاس آئے اورعرض کیا کے مولا حکم دیجیۓ تا کہ ہم اس پر عمل کریں عثمان بن حنیف نے ان لوگوں کی نصیحت کی اور کہا میں صلح حدیبیہ میں موجود تھا اور ہم بھی فی الحال پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راستے پر چلیں گے۔(3)
امام علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ میں اس واقعہ کی مجھے خبر دی تھی یہاں تک کہ فرمایا: اِنَّ لَکَ مثلھٰا سَتُعطِیْھٰا وانت مضطھدة''  یعنی تمہارے لئے ایک ایسا دن ہے اور ایسا ہی کام انجام دوگے جب کہ مجبور ہوگے۔


سوالات:


1- پیمان حکمیت میں امام علیہ السلام کو کن چیوزوں پر مجبور کیا گیا۔؟
2- صلح حدبیہ کا تلخ واقعہ کیا تھا۔؟


منابع:


1- الاخبار الطوال ص192، الامامةولسیاسة ج1 ص113، تاریخ یعقوبی ج 2 ص189، وقعہ صفین ص499
2- وقعہ صفین ص 509،508،  الاخبار الطوال ص194، الامامة والسیاسة ج1 ص114، تاریخ طبری ج3 جزء6 ص29 ، کامل بن اثیرج 3 ص162، تاریخ یعقوبی ج 2ص189 (تھوڑے فرق کے ساتھ) شرح نہج  البلاغہ ابن ابی الحدیدج2 ص232
3- الامامة و السیاسة ج1 ص112

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: