مواد کا کوڈ۔: 72
ہٹس: 1851
تاریخ اشاعت : 04 October 2023 - 17: 14
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (33)
ایک فوج کے لئے جنگ کے دوران سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ سے فوج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے اور اس سے بدترسادہ لوح گروہ کا فتنہ و فساد کرنا اوراپنےعاقل و دانہ سردار کے متعلق سیاسی مسائل سے دورہونا ہے۔

مالک اشتر کو قتل معاویہ سے روکنا


ایک فوج کے لئے جنگ کے دوران سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ سے فوج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے اور اس سے بدترسادہ لوح گروہ کا فتنہ و فساد کرنا اوراپنےعاقل و دانہ سردار کے متعلق سیاسی مسائل سے دورہونا ہے امام علیہ السلام اپنے کو کامیابی کی راہ پر دیکھ رہے تھے اور دشمن کی فرمائشوں سے باخبر تھے لیکن کیا کرتے کہ آپسی اختلاف نے فوج کے اتحاد و اتفاق کو ختم کردیا تھا ۔
امام علیہ السلام نے بیس ہزارمسلح اورمقدس نما سے کہ جن کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان تھے مقابلہ کرنے میں مصلحت نہیں دیکھا اور اپنے ایک قریبی چاہنے والے یزید بن ہانی کو بلایا اور اس سے کہا: تم جتنی جلدی ہو جہاں مالک اشتر جنگ میں مشغول ہیں وہاں پہنچو اور اشتر سے کہو کہ امام علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ جنگ سے ہاتھ روک دے اور میری طرف واپس آجائیں۔
امام علیہ السلام کا قاصد صف مقدم پر تیزی کے ساتھ  پہنچا اورمالک اشتر تک امام علیہ السلام کا پیغام پہنچایا: مالک اشترنے کہا کہ امام علیہ السلام کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دو اور کہہ دو کہ ابھی وہ وقت نہیں ہے کہ مجھے میدان سے بلائیں امید ہے کہ بہت جلد ہی فتح وکامرانی کی خوشبو پرچم اسلام سے اٹھے۔
قاصد نے واپس آکرامام علیہ السلام سےکہا کہ مالک اشترواپس آنے میں مصلحت نہیں سمجھتے اورکہا ہے کہ میں کامیابی کے بالکل قریب ہوں فتنہ فساد کرنے والوں نے امام سے کہا: اشتر کا واپس آنے سے منع کرنا تمہارا حکم ہے تم نے پیغام دیا کہ میدان جنگ میں مقابلہ کریں۔
حضرت علی علیہ السلام نے باکمال سنجیدگی فرمایا: میں نے اپنے قاصد سے ہرگز محرمانہ گفتگو نہیں کہ ہے بلکہ جو کچھ بھی میں نے کہا ہے تم لوگوں نے سنا ہے تم لوگ کیوں ایسی چیز پر جس کو کہ میں نے واضح و آشکار کہا ہے الزام لگا رہے ہو؟
امام علیہ السلام نے یزید بن ہانی سے فرمایا جو کچھ تم نے دیکھا اور سنا ہے وہ مالک اشتر تک پہنچا دو۔
مالک اشترامام علیہ السلام کے پیغام سے باخبر ہوئے اور قاصد سے کہا کہ یہ فتنہ قرآن کو نیزے پر بلند کرکے پیدا کیا گیا ہے اور یہ عمروعاص کا کیا ہوا ہے پھر بڑے افسردہ انداز سے کہا کیا تم فتح کو نہیں دیکھ رہے ہو؟ اور خدا کی نشانیوں کو نہیں دیکھ رہے ہو؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ایسی حالات میں جنگ کے معرکہ کو چھوڑدیا جائے؟
یزيد بن ہانی نے کہا کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم یہاں رہو اورامیر المومنین قتل کردیئے جائیں یا دشمن کے سپرد ہوجائیں؟ مالک اشتر یہ باتیں سن کر لرزنے لگے اور فوراً جنگ سے ہاتھ روک لیا اور خود امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ گئے اورجب آپ کی نگاہ فتنہ و فساد کرنے والوں پر پڑی جو ذلت و رسوائی کے طلب گار تھے تو ان سے کہا: اس وقت ہم نے دشمن پر غلبہ پیدا کر لیا اور کامیابی کے مرحلے پر پہنچ گئے تھے اور تم لوگ ان کے دھوکے میں آگئے ؟ خدا کی قسم ان لوگوں نے خدا کے حکم کو چھوڑ دیا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کو بھی چھوڑدیا ہے ہرگز ان کی درخواست کو قبول نہ کرو اورمجھے کچھ مہلت دو تاکہ میں کام کو یک طرفہ کردوں۔
فتنہ و فساد کرنے والوں نے کہا: کہ تمہاری موافقت کرنا تمہاری خطاؤں میں شریک ہونا ہے ۔
مالک اشترنے کہا: ہائے افسوس کے تمہارے بہترین لوگ قتل ہوگئے اور تمہارے مجبور و عاجز لوگ باقی بچے ہیں مجھے بتاؤ کہ تم لوگ کس زمانے میں حج پر تھے؟ کیا اس زمانے میں جس وقت تم نے جنگ کی اس وقت حق پر تھے اوراس وقت جب کہ جنگ سے باز آگئے ہو باطل پرہو؟ یا اس وقت کہ جب تم نے جنگ کی باطل پر تھے اور اس وقت حق پر ہواگر یہ گمان رکھتے ہو کہ تمھارے جتنے بھی افراد قتل ہوئے وہ لوگ ایمان اور تقویٰ اوراخلاص رکھتے تھے وہ لوگ جہنم میں ہوں۔
فتنہ کرنے والوں نے کہا ہم نے خدا کی راہ میں جنگ کی اور خدا کے لئے جنگ سے ہاتھ اٹھا لیا اور ہم لوگ تمہاری پیروی نہیں کریں گے ہم سے دور ہوجاؤ۔
مالک اشترنے ان کے جواب میں کہا: تم لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے اوراس وجہ سے جنگ چھوڑنے کے لئے دعوت دی گئی ہے اور پیشانیوں پر سجدوں کے نشان رکھنے والوں میں تمہاری نمازوں کو دنیا سے سرخرو جانے اور شہادت کے شوق میں سمجھ رہا تھا لیکن اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ تمہارا ہدف موت سے فراراوردنیا کی طرف راغب ہونا ہے افسوس تم لوگوں پر اے فضلہ خور جانوروں کی طرح، ہرگز تمہیں عزت نصیب نہیں ہوگی دور ہوجاؤ جس طرح سے ظالم و ستمگر دور ہوگئے اس وقت فتنہ و فسا د پیدا کرنے والے ایک طرف اورمالک اشتردوسری طرف، ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور ایک دوسروں کے گھوڑوں پرتازیانے سے حملے کررہے تھے امام علیہ السلام کے سامنے یہ ناگوارمنظراتنا درد ناک تھا کہ آپ نے فریاد بلند کی کہ ایک دوسرے سے دور ہوجاؤ۔
ایسے حالات میں فتنہ و فساد اورفرصت رکھنے والوں نے امام علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے فریاد بلند کی کہ قرآن کے فیصلے سے راضی ہوجائیں تا کہ امام کو جو چیز انجام دی جاچکی ہے اس کے سامنے کھڑا کریں۔ امام علیہ السلام خاموش تھے اور بات بھی نہیں کررہے تھے اور فکر کے دریا میں غرق تھے۔(1)


حکمیت کا مسئلہ اور گروہ کا دباؤ


عمروعاص نے معاویہ کو جو مشورہ دیا تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کو قرآن کی حاکمیت کی دعوت دو کہ وہ قبول کریں چاہے قبول نہ کریں آپس میں اختلاف کا شکار ہوجائیں گے، مکمل طور سے عمدہ ثابت ہوا اور امام علیہ السلام کی فوج میں عجیب اختلاف پیدا ہوگيا اوردوگروہوں میں تقسیم کردیا لیکن اس میں اکثر سادہ لوح تھے جو جنگ سے تھک جانے کی وجہ سے معاویہ کے ظاہری فریب کا شکار ہوگئے تھے اور امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر نعرہ لگایا کہ ''علی نے حکمیت قرآن کی اجازت دیدی ہے '' جب کہ حضرت بالکل خاموش بیٹھے تھے اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں غور وفکر کررہے تھے(2)


معاویہ کا خط امام علیہ السلام کے نام


ایسے پُر آشوب حالات میں معاویہ نے امام علیہ السلام کو یہ خط لکھا:
'' ہمارے درمیان لڑائی ہوتے ہوئے بہت وقت ہوگیا ہے اورہم میں سے ہر ایک جو چیز مقابل سے حاصل کرنا چاہتا ہے اسے حق سمجھتا ہے جب دونوں میں کوئی بھی ایک دوسرے کی اطاعت نہیں کرسکتا، دونوں طرف سے بہت زیادہ لوگ قتل ہو گئے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ آئندہ، گزشتہ سے بدتر ہو ہم لوگ اس جنگ کے ذمہ دارہیں اور میرے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے میرا ایک مشورہ ہے جس کے اندرزندگی، امت کی اصلاح اوران کے جان و مال کی حفاظت اوردین سے محبت اور کینہ کا دور ہونا ہے اور دوآدمی، یعنی ایک ہمارے دوستوں میں سے اور دوسرا تمہارے اصحاب سے جو مورد رضایت ہو ہمارے درمیان قرآن کے مطابق فیصلہ کرے یہ میرے اور تمہارے لئے اور فتنے کو دور کرنے کے لئے اچھا ہے، اس مسئلہ میں خدا سے ڈرو اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق اجازت دو اگر اس کے اہل ہو۔''(3)
واضح سی بات ہے کہ نیزہ پر قرآن کریم کا بلند کرنا صرف ایک جھوٹی اور بیہودہ تبلیغ اوراختلاف کرنا نہیں تھا اور یہ قرآن سے فیصلہ بھی نہیں چاہتے تھے لیکن معاویہ نے اس خط میں اس ابہام کو بالکل نہیں لکھا اور دونوں طرف سے آدمیوں کے انتخاب کو تحریر کیا اور خط کے آخر میں امام علیہ السلام کو تقوے اور قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دی۔


امام علیہ السلام کا جواب معاویہ کے نام


جھوٹ اور ظلم وستم، انسان کے دین اور دنیا دونوں کو تباہ کردیتا ہے اور اس کی لغزش کو عیب نکالنے والوں کے سامنے ظاہرکردیتا ہے توجانتا ہے کہ جو تونے اس سے پہلے انجام دیا ہے اس کو پورا نہیں کرسکتا ایک گروہ نے بغیرحق کے عہدو پیمان توڑدیا اورخلافت کا دعویٰ کردیا اورخدا وندعالم کے صریحی حکم کی تاویل کردی اور خدا وندعالم نے ان کے جھوٹ کو ظاہر کردیا، اس  دن سے ڈرو کہ جس دن کام کی تعریف ہوگی تو وہ خوشحال ہوگا اورجس شخص نے اپنی رہبری کو شیطان کے ہاتھوں میں سپرد کردیا ہے اوراس سے جنگ کے لئے نہیں اٹھا، شرمندہ و پشیمان ہوگا۔ دنیا نے اسے دھوکہ دیا ہے اوراس سے دل لگایا ہے، مجھے حکم قرآن کی دعوت دی ہے جب کہ تو خود ایسا نہیں ہے میں نے تجھے جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن کے فیصلے کو قبول کیا ہے۔(4)


سوال:


1- امام علیہ السلام نے معاویہ کے خط کے جواب میں کیا لکھا۔؟


منابع:


1- وقعہ صفین ص492 ، شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج2 ص216،219 
2- الامامة والسیاسة ج 1 ص104
3- الاخبارالطوال ص191، وقعہ صفین ص493
4- ( دونوں خط کو ابن مزاحم منقری نے ''وقعہ صفین ''ص494 اور ابن اعثم کوفی نے کتاب ''الفتوح'' ج3ص322 میں نقل کیا ہے امام علیہ السلام کا خط تھوڑے فرق کے ساتھ نہج البلاغہ مکتوب نمبر48 میں بھی آیا ہے اور نہج البلاغہ سے بھی مختصردینوری نے اخبار الطوال ص 91 میں ذکر کیا ہے۔)
  
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: