مواد کا کوڈ۔: 76
ہٹس: 1866
تاریخ اشاعت : 08 October 2023 - 07: 11
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(37)
حضرت علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوئے اورمحراب عبادت میں نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تکبیرۃ الاحرام کہا اورحمد و سورہ پڑھنے کے بعد سجدے میں گئے ایسے عالم میں ابن منجم مرادی نے فریاد بلند کی " للہ الحکم لا لک یا علی" اور زہر سے بجھی ہوئی تلوارآپ کے سر اقدس پر ماری۔

جنگ نہروان سے امام علی علیہ السلام کی شہادت تک


حضرت علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوئے اورمحراب عبادت میں نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تکبیرۃ الاحرام کہا اورحمد و سورہ پڑھنے کے بعد سجدے میں گئے ایسے عالم میں ابن منجم مرادی نے فریاد بلند کی " للہ الحکم لا لک یا علی" اور زہر سے بجھی ہوئی تلوارآپ کے سر اقدس پر ماری، اتفاق سے یہ یہ ضربت ایسی جگہ پر لگی کہ عمرو بن عبدود کی تلوار بھی اسی مقام پر لگی تھی اور اس ضربت نے آپ کے سر کو پیشانی تک شگافتہ کردیا۔


جنگ نہروان


ابوسفیان کے بیٹے کی بدترین اورغیرجانبدارسیاست اوراس کی جدا گانہ عقل عمروعاص کی وجہ سے بہت زیادہ تلخ اورغم انگیز واقعات رونما ہوئے، اس واقعہ کا انجام پہلے ہی دن سے اس کے برے آثار سے آگاہ تھا اور اپنی کامیابی کے لئے حکمیت کے مسئلہ پر اسے مکمل اطمینان تھا اس سیاست کو سمجھنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہم معلوم کریں کہ اس بدترین سیاست کی وجہ سے دشمن نے اپنی آرزو حاصل کی یا نہیں ، جو نتیجہ اس سلسلہ میں نکلا ہے اس میں سے درج ذیل چیزوں کا نام لے سکتے ہیں ۔
1۔ شامات پرمعاویہ کا قبضہ ہوگیا جس میں تمام چھوٹے بڑے شہر اورعلاقے شامل ہیں اور اس کے تمام سردار اور اس علاقہ میں اس کے نمائندے صدق دل سے اس کے مطیع وفرماں بردار ہوگئے اور اگر کسی وجہ یا غرض کی بناء پرحضرت علی علیہ السلام سے دل لگائے تھے تو ان کو چھوڑ کر معاویہ سے ملحق ہوگئے۔
2۔ امام علیہ السلام جو کامیابی کی آخری منزل پر تھے اس سے بہت دور ہوگئے اور پھر کامیابی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ امام علیہ السلام کی فوج میں جہاد کرنے کی صلاحیتیں بہت زیادہ ختم ہوگئیں تھیں اور اب لوگوں کے اندر شہادت کا جوش و جذبہ ختم ہوگیا تھا۔
3۔ معاویہ کی برباد ہوتی ہوئی فوج دوبارہ زندہ ہوگئی، بہ اصطلاح پھر سے جوان ہوگئی اورعراق کے لوگوں کی روح کو کمزورکرنے کے لئے اس نے لوٹ ماراورغارت گری شروع کردی تاکہ اس علاقے کا امن و چین ختم ہوجائے اور مرکزی حکومت کو کمزور اعلان کردے۔
 4۔ ان تمام چیزوں سے بدتر یہ کہ عراق کے لوگ دو گروہ میں بٹ گئے ایک گروہ نے حکمیت کو قبول کیا اوردوسرے گروہ نے اسے کفراور گناہ سے تعبیر کیا ( البتہ یہ گروہ وہی لوگ تھے جس نے میدان صفین میں امام علیہ السلام کو حکمیت قبول کرنے پر مجبور کیا تھا ) اور امام علیہ السلام کے لئے ضروری سمجھا کہ وہ اس کام سے توبہ کریں ورنہ اطاعت کی ریسمان سے ان کی گردن سے کھول دیں گے اور ان سے معاویہ کی طرح جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں گے۔
5۔ ایسی فکررکھنے کے باوجود، حکمیت کے مخالفین جو ایک وقت تھا کہ امام کے طرفداراور چاہنے والے تھے اورامام علیہ السلام نے اس گروہ کے دباؤ کی وجہ سے اپنی مرضی اوراپنے عقیدہ کے برخلاف ووٹ دیا تھا حضرت کے کوفہ میں آنے کے بعد ہی ان لوگوں نے حکومت وقت کی مخالفت کرنے والوں کے عنوان سے شہر چھوڑدیا اور کوفہ سے دومیل کی دوری پر پڑاؤ ڈالا، ابھی جنگ صفین کے برے اثرات ختم نہ ہوئے تھے کہ ایک بدترین جنگ بنام '' نہروان'' رونما ہوگئی اور یہ سرکش گروہ اگرچہ ظاہری طور پر بہت مضطرب و پریشان ہوئے لیکن اس گروہ کے باقی لوگ اطراف و جوانب میں لوگوں کو آمادہ کرنے لگے اوراسی تحریک کے اثر کی وجہ سے انیس رمضان سن چالیس ہجری کوعلی علیہ السلام خوارج کی اسی پستی کی وجہ سے قربان ہوگئے اور محراب عبادت میں شہید ہوگئے۔
جی ہاں، امام علیہ السلام نے اپنی حکومت کے زمانے میں تین بہت سخت جنگوں کا سامنا کیا جو تاریخ اسلام میں بے مثال ہے۔ پہلی جنگ میں:عہد وپیمان توڑنے والے طلحہ و زبیر کہ جنہوں نے ام المومنین کی حیثیت جو کہ رسول اسلام کی حیثیت وعظمت کی طرح تھی اس کے ساتھ بری طرح پیش آئے اور انہیں خونی جنگ میں لے گئے اور آخر میں مورد سرزنش قرار پائے۔
دوسری جنگ میں: مد مقابل ابوسفیان کا بیٹا معاویہ تھا کہ جس نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا بہانہ بنایا اور سرکشی کے ذریعے مرکزی حکومت اور امام منصوص اور مہاجرین اور انصار کے ذریعے چنے گئے خلیفہ کی مخالفت کے لئے اٹھا اور حق وعدالت کے راستے سے منحرف ہوگیا۔
تیسری جنگ میں: جنگ کرنے والے امام علیہ السلام کے قدیمی ساتھی تھے جن کی پیشانیوں پرعبادتوں کی کثرت سے سجدوں کے نشان تھے اوران کی تلاوتوں کی آواز ہر طرف پہنچ رہی تھی اس گروہ سے جنگ پہلی دوجنگوں سے زیادہ مشکل تھی، مگرجب امام علیہ السلام نے کئی مہینہ صبروتحمل، تقریروں اوربا اثر شخصیتوں کے بھیجنے کے بعد بھی ان کی اصلاح سے مایوس ہوگئے اور جب وہ لوگ اسلحوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئے تو ان کے ساتھ جنگ کی اورخود آپ کی تعبیر کے مطابق '' فتنہ کی آنکھ کو جڑ سے نکال دیا'' امام علیہ السلام کے علاوہ کسی کے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ ان مقدس نما افراد کے ساتھ جنگ کرتا لیکن حضرت علی علیہ السلام کا اسلام کے ساتھ سابقہ اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں جنگ کے میدان میں آپ کی ہجرت اورایثار اورپوری زندگی میں زہد و تقویٰ اور مناظرہ کے میدان میں علم ودانش سے سرشار اور بہترین وعمدہ منطقی دلیل وغیرہ جیسی صلاحیتوں نے آپ کو وہ قدرت عطا کی تھی کہ جس کے ذریعے آپ نے فساد کو جڑ سے اکھاڑدیا۔
تاریخ اسلام میں ان تینوں گروہوں کا نام، ناکثین (عہد وپیمان توڑنے والے ) اور قاسطین ( ظالم و ستمگر اور حق سے دور ہونے والے) اورمارقین (گمراہ اور دین سے خارج ہونے والے افراد) کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ تینوں نام پیغمبر کے زمانے میں رکھے گئے تھے۔ خود رسول اسلام نے ان تینوں گروہوں کے اس طرح سے صفات بیان کئے تھے اورعلی علیہ السلام اور دوسرے لوگوں سے فرمایا تھا کہ علی ان تینوں گروہ سے جنگ کریں گے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ کام خونی جنگ اورغیب کی خبر دیتا ہے جسے اسلامی محدثین نے حدیث کی کتابوں میں مختلف مناسبتوں سے یاد کیا ہے۔ نمونہ کے طور پر یہاں ان میں سے ایک کو ذکر کررہے ہیں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: " أمرنی رسول اللّٰہ بقتال الناکثین والقاسطین والمارقین'' (1)پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ ناکثین ، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کروں۔


خوارج کا بدترین مظاہرہ


لفظ "خوارج" بہت زیادہ استعمال ہونے والے لفظوں میں سے ہے اورعلم تاریخ اورعلم کلام کی بحثوں میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے اورعربی لغت میں یہ لفظ حکومت پر شورش وحملہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اورخوارج ایسے گروہ کو کہتے ہیں جو حکومت وقت پر فتنہ ایجاد کرے اوراسے قانونی نہ جانے لیکن علم کلام اور تاریخ کے علماء کی اصطلاح میں حضرت علی علیہ السلام کے سپاہیوں میں سے نکلے ہوئے گروہ کو کہتے ہیں جنہوں نے مسئلہ حکمیت ابوموسیٰ اشعری اورعمرو عاص کے قبول کرنے کی وجہ سے اپنے کو امام علیہ السلام سے جدا کرلیا اوراس جملے سے اپنا نعرہ بلند کیا '' ان الحکم الا اللّٰہ ''اور یہ نعرہ ان کے درمیان باقی رہا اور اسی نعرہ کی وجہ سے علم ملل ونحل میں انہیں '' محکمیہ '' کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
امام علیہ السلام نے حکمیت کا مسئلہ قبول کرنے کے بعد مصلحت سمجھا کہ میدان صفین کوچھوڑدیں اور کوفہ واپس چلے جائیں اورابوموسیٰ اورعمروعاص کے فیصلے کا انتظار کریں، حضرت جس وقت کوفہ پہنچے تو اپنی باغی فوج کے کئی گروہوں سے روبرو ہوئے، آپ اورآپ کے جانبازوں نے مشاہدہ کیا کہ بہت سے سپاہیوں نے کہ جن کی تعداد بارہ ہزار لوگوں پر مشتمل تھی کوفہ میں آنے سے پرہیزکیا اورحکمیت کے قبول کرنے کی وجہ سے بعنوان اعتراض کوفہ میں آنے کے بجائے'' حروراء'' نامی دیہات کی طرف چلے گئے اوران میں سے بعض لوگوں نے'' نخلیہ '' کی چھاؤنی میں پڑاؤ ڈالا۔ حکمیت، جسے خوارج نے عثمان کا پیراہن بنا کر امام علیہ السلام کے سامنے لٹکایا تھا، وہی موضوع تھا کہ ان لوگوں نے خود اس دن، جس دن قرآن کو نیزہ پر بلند کیا گیا تھا، امام علیہ السلام پر اسے قبول کرنے کے لئے بہت زیادہ دباؤ ڈالا تھا یہاں تک کہ قبول نہ کرنے کی صورت میں آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد اپنے شیطانی فکروں اور اعتراضی مزاج کی وجہ سے اپنے عقیدے سے پلٹ گئے اوراسے گناہ اور خلاف شرع بلکہ شرک اور دین سے خارج جانا اور خود توبہ کیا اور امام علیہ السلام سے کہا کہ وہ خود بھی اپنے گناہ کا اصرار کرکے توبہ کریں اور حکمیت کے نتیجے کے اعلان سے پہلے فوج کو تیار کریں اورمعاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھیں لیکن امام علی علیہ السلام ایسے نہ تھے کہ جو گناہ انجام دیتے اورغیرشرعی چیزوں کو قبول کرتے اورجو عہد وپیمان باندھا ہے اسے نظر انداز کردیں، مگر امام علیہ السلام نے اس گروہ پر کوئی توجہ نہیں دی اور کوفہ پہنچنے کے بعد پھر اپنی زندگی بسر کرنے لگے لیکن شرپسند خوارج نے اپنے برے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مختلف کام کیا جس میں بعض یہ ہیں ۔
1۔ امام علیہ السلام سے خصوصی ملاقاتیں کیں تاکہ انہیں عہد وپیمان توڑنے پر آمادہ کریں ۔
2 ۔ نمازباجماعت میں حاضر نہ ہونا۔
3۔ مسجد کے اندرعلی علیہ السلام کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگانا۔
4۔ علی علیہ السلام اورجو لوگ صفین کے عہد وپیمان کو عمدہ جانتے تھے انہیں کافر کہنا۔
5۔ عظیم شخصیتوں کو قتل کرکے عراق کے امن وچین کو خراب کرنا۔
6۔ امام علیہ السلام کی حکومت کے مقابلے میں مسلّحانہ قیام۔
اور اسی کے مقابلے میں امام علیہ السلام نے جو کام خوارج کے فتنے کو ختم کرنے کے لئے انجام دیا ان امورکو بطور خلاصہ پیش کررہے ہیں ۔
1۔ صفین میں حکمیت کے مسئلہ پر اپنی موقعیت کو واضح کرنا اور یہ کہ آپ نے ابتداء سے ہی اس چیز کی مخالفت کی اور دستخط کرانے کے لئے زوروزبردستی اور دباؤ کے علاوہ کچھ اور نہ ہوسکا۔
2۔ خوارج کے تمام سوالوں اوراعتراضوں کا جواب اپنی گفتگو اور تقریروں میں بڑی خوش اسلوبی سے دیا۔
3۔ اہم شخصیتوں کو بھیجنا مثلاً ابن عباس کو ان لوگوں کے ذہنوں کی ہدایت اور صحیح ہونے کے لئے بھیجنا۔
4۔ تمام لوگوں کو خوشخبری دینا اگر خاموشی اختیار کی اگرچہ ان کی فکر ونظریہ تبدیل ہی نہ ہوں اور دوسرے مسلمانوں اوران میں کوئی فرق نہیں ہوگا اوراسی وجہ سے بیت المال سے ان کا حصہ دیا جائے گا اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گا اور کبھی یہ سلسلہ ختم نہ ہوگا۔
5۔ ظالم خوارج جنہوں نے عبداللہ خباب اوران کی حاملہ بیوی کو قتل کیا تھا اس کے بارے میں تحقیق کرنا۔
6۔ ان کے مسلّحانہ قیام کا مقابلہ کرکے فتنہ وفساد کو جڑ سے ختم کرنا۔
یہ تمام عنوان اس حصے میں ہماری بحث کا موضوع ہیں اورخوش بختی یہ ہے کہ تاریخ نے ان تمام واقعات کو تاریخ کے اعتبارسے نقل کیا ہے اور ہم تمام حادثوں کو فطری محاسبہ کے اعتبار سے بیان کریں گے۔قارئین کرام خوارج کے کام اور امام علیہ السلام کا رد عمل ایک طویل بحث ہے ہم یہاں پراختصار کو مد نظررکھتے ہوئے انہیں بیان نہیں کررہے ہیں تفصیل کے خواہشمند افراد آیت اللہ العظمی الشیخ جعفر سبحانی دام ظلہ العالی کی معرکۃالآراء کتاب " فروغ ولایت" کی طرف رجوع فرمائيں۔ (جس کے ترجمے کا شرف بھی مقالے کے مترجم کو حاصل ہوا ہے ۔ )


سوالات:


1- جنگ صفین کو ختم کرنے کے لئے معاویہ اورعمرو عاص کی بدترین پالیسیوں کا کیا نتجہ نکلا۔؟
2-حضرت علی علیہ السلام اپنی حکومت کے زمانے میں کن جنگوں سے روبرو ہوئے۔؟ 3- علم کلام اور تاریخ میں خوارج کے لغوی معنی کیا ہیں۔؟
4- خوارج اپنے بدترین مقصد تک پہنچنے کے لئے کیا امور انجام دئیے۔؟
5- حضرت علی علیہ السلام نے خوارج سے روبرو ہوتے وقت کیا روش اپنائی۔؟


منابع:


1- تاریخ بغدادی ج8  ص 340
  
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: