مواد کا کوڈ۔: 82
ہٹس: 1853
تاریخ اشاعت : 15 October 2023 - 09: 45
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (43)
جنگ نہروان ختم ہوئی اورعلی علیہ السلام کوفہ واپس آئے مگر خوارج میں سے کچھ لوگوں میں سے جنہوں نے نہروان میں توبہ کیا تھا دوبارہ مخالفت کرنے لگے اور فتنہ و فساد برپا کرنے لگے۔اس میں سے کچھ لوگ قتل ہوئے تو کچھ لوگ زخمی ہوگئے اور کچھ فرارہوگئے اور انہیں بھاگنے والوں میں سے عبد الرحمن بن ملجم تھا۔

حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کا آخری ورق


جنگ نہروان ختم ہوئی اورعلی علیہ السلام کوفہ واپس آئے مگر خوارج میں سے کچھ لوگوں میں سے جنہوں نے نہروان میں توبہ کیا تھا دوبارہ مخالفت کرنے لگے اور فتنہ و فساد برپا کرنے لگے۔اس میں سے کچھ لوگ قتل ہوئے تو کچھ لوگ زخمی ہوگئے اور کچھ فرارہوگئے اور انہیں بھاگنے والوں میں سے عبد الرحمن بن ملجم تھا جو قبیلہ مراد کا رہنے والا تھا اورمکہ بھاگ گیا تھا۔ بھاگنے والے خوارج نے مکہ کو اپنا جنگی مرکز بنایا اوران میں سے تین لوگ عبدالرحمن ابن ملجم مرادی، برک بن عبد اللہ تمیمی اور عمربن بکر تمیمی ایک رات جمع ہوئے اور اس دن ہونے والی آپسی جنگ اور خون ریزی کی تحقیق و جستجو کرنے لگے اورنہروان اوراس میں زخمی ہونے والوں کا تذکرہ کیا اورپھر یہ طے پایا کہ اس خونریزی اورآپسی جنگ کا سبب علی علیہ السلام، معاویہ اورعمروعاص ہیں اور اگر یہ تینوں آدمی ختم ہوجائیں تو مسلمان اپنی اپنی ذمہ داریوں کو خود جان لیں گے اور اپنی خواہش اور ارادے سے خلیفہ چن لیں گے پھر ان تینوں آدمیوں نے آپس میں معاہدہ کیا اوراسے قسم کے ذریعے اورمستحکم کیا کہ اس میں سے ہر ایک، ان تینوں میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔ابن ملجم نے علی علیہ السلام کو قتل کرنے کا عہد کیا عمر بن بکر نے عمروعاص کو مارنے کا ذمہ لیا اوربرک بن عبد اللہ نے معاویہ کو قتل کرنے کا عہد کیا۔(1)
اس سازش کا نقشہ خفیہ طور پر مکہ میں بنایا گیا اورتینوں آدمی اپنے مقصد کو ایک ہی دن انجام دیں اس لئے رمضان المبارک کی انیسویں کی رات معین ہوئی اورہرشخص اپنا کام انجام دینے کے لئے اپنے اپنے مورد نظرشہرگیا عمر بن بکر،عمروعاص کو قتل کرنے کے لئے مصرگیا اوربرک بن عبد اللہ معاویہ کو قتل کرنے کے لئے شام گیا اور ابن ملجم بھی کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔
برک بن عبد اللہ شام پہنچا اورمعین شدہ رات میں مسجد گیا اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا اورجب معاویہ سجدے میں گیا تواس نے تلوارسے حملہ کیا لیکن خوف و ہراس کی وجہ سے نشانہ چوک گیا اور تلوارخطا کرگئی اورسر کے بجائے معاویہ کی ران پرلگی اورمعاویہ شدید زخمی ہوگیا اسے فوراً گھر میں لائے اور بستر پرلٹادیا،جب حملہ کرنے والے کواس کے سامنے حاضرکیا تومعاویہ نے اس سے پوچھا تمہیں اس کام کے انجام دینے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ اس نے کہا اگر امیر مجھے معاف کریں تو ایک خوشخبری دوں، معاویہ نے کہا تیری خوشخبری کیا ہے؟ برک نے کہا علی کو آج ہی ہمارے ایک ساتھی نے قتل کیا ہے اوراگر یقین نہ ہوتو مجھے قید کردیں یہاں تک کہ صحیح خبرآپ تک پہنچ جائے اور اگرعلی قتل نہ ہوئے تو میں عہد کرتا ہوں کہ میں وہاں جا کراسے قتل کردوں اور پھرتمہارے پاس واپس آجاؤں، معاویہ نے اسے علی کے قتل کی خبرآنے تک اپنے پاس رکھا اور جب خبر کی تصدیق ہوگئی تو اسے آزاد کردیا اور ایک دوسرے قول کے بنأ پراسی وقت اسے قتل کرادیا۔(2)
جب حکیموں نے معاویہ کے زخم کا معاینہ کیا تو کہا کہ اگرامیراولاد کی خواہش نہ رکھتے ہوں تو دوا کے ذریعے علاج ہوسکتا ہے ورنہ پھرزخم کو آگ میں گرم کرنا پڑے گا معاویہ آگ سے گرم کرنے سے ڈرا اور نسل کے منقطع ہونے پر راضی ہوگیا اور کہا یزید اورعبد اللہ میرے لئے کافی ہیں۔(3)
عمروبن بکر بھی اسی رات مصر کی مسجد میں گیا اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا مگراس دن عمروعاص کو زبردست بخار آگیا اور کمزوری اور سستی کی وجہ سے مسجد میں نہیں آسکا اورخارجہ بن حنیفہ کو نماز پڑھانے کے لئے مسجد بھیجا اورعمربن بکر نے عمروعاص کے بجائے اسے قتل کردیا اور جب حقیقت معلوم ہوئی تو کہا، أردتُ عمرواً واَرادَ اللہ خاَرِجَة''۔ یعنی میں نے عمروعاص کو قتل کرنا چاہا اور خدا نے خارجہ کو قتل کرانا چاہا۔
لیکن عبد الرحمن بن ملجم مرادی بیس شعبان سن چالیس ہجری کوفہ آیا اور جب علی علیہ السلام کو اس کے آنے کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا ''وہ آگیا'' اب اس چیز کے علاوہ مجھ پر کوئی چیز باقی نہیں ہے اور اب اس کا وقت بھی آگیا ہے۔
ابن ملجم اشعث بن قیس کے گھر میں داخل ہوا اور ایک مہینہ اس کے گھر میں رہا اور روزانہ اپنی تلوار کو تیز کرتا تھا(4) اوروہاں ایک لڑکی تھی قطامہ جو خود خوارج میں سے تھی اس سے ملا اور اس کا عاشق ہوگیا، مشہور مورخ مسعودی کے نقل کرنے کے مطابق قطامہ، ابن ملجم کی چچازاد بہن تھی اوراس کے باپ اوردو بھائی جنگ نہروان میں قتل ہوئے تھے قطام کوفہ کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی اورجب ابن ملجم نے اسے دیکھا توتمام چیزوں کوبھول گیا اوراس سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔ (5)قطامہ نے کہا: میں پوری رغبت و خواہش سے تمہیں اپنا شوہر قبول کروں گی مگر شرط یہ ہے کہ میری مہرمیری خواہش کے اعتبار سے قراردو، عبدالرحمن نے کہا ، بتاؤ تمہارا مقصد کیا ہے؟
قطامہ نے جب عاشق کو سرِ تسلیم خم دیکھا تو مہر کو اور بھی سنگین کردیا اور کہا: تین ہزاردرہم ، ایک غلام ، ایک کنیز اورعلی ابن ابیطالب کا قتل۔
ابن ملجم  نے کہا:میں تصور نہیں کرسکتا کہ تم مجھے چاہو اور پھر مجھ سے علی کے قتل کرنے کی درخواست کرو۔
قطامہ نے کہا: توکوشش کر اور اس سے غافل ہوجا اوراس صورت میں اگر تم نے اسے قتل کیا تو ہم دونوں اس سے اپنا بدلہ لے لیں گے اور پھر ہنسی خوشی دن بسر کریں گے اوراگر اس راہ میں تو مارا گیا تو خدا نے آخرت کے لئے جو ثواب تیرے لئے ذخیرہ کیا ہے وہ اس دنیا کی نعمتوں سے بہت زیادہ بہتر اور پایدار ہے۔
ابن ملجم نے قطامہ کا جواب دیتے ہوئے کہا: تمہیں معلوم ہو کہ میں صرف اسی کام کے لئے کوفہ آیا ہوں(6)


امام علیہ السلام اورشب شہادت


حضرت علی علیہ السلام اس سال رمضان المبارک میں مسلسل اپنی شہادت کی خبردے رہے تھے یہاں تک کہ رمضان المبارک کے وسط میں جب کہ آپ منبر پرتشریف فرما تھے اس وقت آپ نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اورفرمایا: شقی اوربد ترین دشمن ان بالوں کو میرے سر کے خون سے رنگین کرے گا۔
ماہ رمضان آگیا ہے اور یہ تمام مہینوں کا سردار ہے اس مہینے میں حکومت کے حالات بدل جائیں گے،آگاہ ہوجاؤ کہ تم اس سال ایک ہی صف (بغیرامیر) میں حج کروگے اور اس کی علامت یہ ہے کہ میں تم لوگوں کے درمیان نہ ہوؤں گا(7)۔آپ کے اصحاب نے کہا: وہ اس کلام کے ذریعے اپنی موت کو خبر دے رہے ہیں لیکن انہیں درک نہیں کریں گے (8)
اسی وجہ سے امام علیہ السلام اپنی عمرکے آخری دنوں میں روزانہ رات کو اپنے بچوں میں سے کسی ایک کے گھرتشریف لے جاتے تھے،کسی رات امام حسن علیہ السلام کے پاس تو کبھی امام حسین علیہ السلام کے گھر اور کبھی اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا کے گھرافطار کرتے تھے اورکبھی بھی تین لقموں سے زیادہ کھانا نہیں کھا تے تھے آپ کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے نے کم کھانے کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا فرمان آرہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرا پیٹ خالی ہو ایک یا دو رات سے زیادہ باقی نہیں اور اسی رات آپ کے سر پر ضربت لگی۔ (9)
انیس رمضان المبارک شہادت کی رات آپ افطار کے لئے اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا کے مہمان تھے،افطار کے وقت آپ نے تین لقمہ غذا تناول فرمایا اور پھرعبادت میں مشغول ہوگئےاورشام سے صبح تک بہت ہی مضطرب اوربے چین تھے کبھی آسمان کی طرف نظرکرتے اورستاروں کی گردش کو دیکھتے تھے اور طلوع فجرجتنا نزدیک ہوتی تھی اضطراب اور بے چینی میں اضافہ ہوتا تھا اورفرماتے تھے کہ خدا کی قسم، نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اورنہ وہ دشمن جس نے مجھے خبر دیا ہے جھوٹ کہا ہے اور یہی وہ رات ہے کہ جس میں میری شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔(10)
یہ وعدہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دیا تھا علی علیہ السلام خود نقل کرتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان المبارک کی اہمیت و فضلیت کے بارے میں خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر خطبہ کے آخرمیں رونے لگے میں نےعرض کیا: اے رسول خداآپ رو کیوں رہے ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اس مہینے میں جو تمھارے ساتھ پیش آئے گا اس کو سوچ کر رو رہا ہوں ۔''کأنِّیِ بِکَ وأنتَ تُصَلّی لرَ بَّکَ وَقد انبَعثَ اَشَقَی الاولین والاخرِینَ شقیق عٰاقِرناقَةِ ثَموُدَفَضَربَکَ ضَربَةً عَلیٰ فَرْ قِکَ فَخضَّبَ منِھاٰ لِیْحیتَکَ(11)یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نماز میں مشغول ہواوردنیا کا سب سے شقی اوربد بخت ترین آدمی ناقہ ثمود کے مارنے کی طرح کھڑا ہوگا اور تمہارے سر پر ضربت مارے گا اورتمھاری داڑھی کو خون سے رنگین کرے گا۔
بالآخرکرب اور بے چینی کی وہ رات ختم ہوئی اورعلی علیہ السلام سحر کی تاریکی میں نمازصبح ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف تشریف لےگئے گھرمیں جومرغابیاں پلی تھیں انہوں نے آپ کا راستہ روکا اورلباس پکڑ لیا بیٹی نے چاہا کہ ان سب کو دور کردیں مگر آپ نے فرمایا: ''دَعُوْھُنَّ فَاِ نَّھُنَّ صَوایحُٔ تَتْبَعُھٰا نَوایِحُ'' یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ فریا د کررہی ہیں اور مسلسل نوحہ و بکا کررہی ہیں۔(12)


منابع:


1- مقاتل الطالبین ص 29، الامامة و السیاسة ج1ص137
-2 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 6 ص114
3- مقاتل الظالبین ص30 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج6 ص113
4- الاخبار الطوال ص213، مروج الذہب ج 2 ص 423
5- الاخبار الطوال ص214، کشف الغمہ ج1ص582، مقاتل الطالبین ص37
6- مروج الذہب ج 2 ص 423، الاخبار الطوال ص 312
7-  ارشاد مفید ص151 ، روضة الواعظین ج1 ص163
8-ارشاد مفید ص151 ، روضة الواعظین ج1 ص163
9- الارشاد ص 151، روضة الواعظین ج1 ص164 ، کشف الغمہ ج 1 ص581
10- روضہ الواغطین ج1 ص164
11۔  عیون اخبار الرضأ ج2 ص297
12- تاریخ یعقوبی ج2 ص212، ارشاد ص 652، روضة الوعظین ج1 ص165، مروج الذہب ج2 ص425  
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: