مواد کا کوڈ۔: 81
ہٹس: 1830
تاریخ اشاعت : 12 October 2023 - 23: 27
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(42)
جب معاویہ کہ خبرملی کہ امام علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم بنایا ہے تو وہ گھبرا گیا کیونکہ وہ مصر کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا چونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر مصر کی حکومت مالک اشترکے ہاتھوں میں آگئی تواس کے لئے وہاں کے حالات محمد بن ابی بکر کے زمانے سے اوربھی بدترہوجائیں گے۔

مالک اشتر کو قتل کرنے کا منصوبہ


جب معاویہ کہ خبرملی کہ امام علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم بنایا ہے تو وہ گھبرا گیا کیونکہ وہ مصر کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا چونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر مصر کی حکومت مالک اشترکے ہاتھوں میں آگئی تواس کے لئے وہاں کے حالات محمد بن ابی بکر کے زمانے سے اوربھی بدترہوجائیں گے اسی وجہ سے اس نے ایک طریقہ اپنا اور جزیہ دینے والوں میں سے ایک شخص کے جزیہ کو معاف کردیا اور اس کے ذریعے سے مالک اشترکے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دوسری طرف مصر کے لوگوں نے امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ جتنی جلدی ہوسکے ایک دوسرا حاکم معین فرمائیں امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں لکھا:''خدا کے بندے علی امیر المومنین کی طرف سے مسلمانوں کے نام تم لوگوں پرسلام ہے اس خدا کی تعریف جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں میں نے ایسے شخص کو تمہاری طرف بھیجا ہے جس کی آنکھوں میں خوف و ہراس کے دن بھی نیند نہیں آتی اوروحشت کے وقت ہرگز دشمن سے نہیں ڈرتا اورکفار کے لئے آگ سے زیادہ سخت تر ہے وہ مالک اشتر حارث کا بیٹا اور قبیلہ مذحج سے ہے، اس کی باتوں کو سنو اوراس کے فرمان کو جب تک حق باتیں کہے غور سے سنو وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو کند نہیں ہوگی(یعنی دھار ختم نہ ہوگی) اوراس کی ضربت خطا نہیں کرتی اگر دشمن کی طرف جانے کا حکم دے تو فوراً روانہ ہوجاؤ اور اگر ٹھہرنے کا حکم دے تو ٹھہرجاؤ اس کا حکم میرا حکم ہے میں نے اسے تمہارے لئے مخصوص کرکے تمہارے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دی ہے تا کہ اس کی خیرخواہی تمہارے کام آئے اور اس کی خوداری اورغیر مندی تمہارے دشمن کا منہ پھیردے ۔ (1)
امام علیہ السلام کے نئے نمائندے اور حاکم پورے سازوسامان کے ساتھ مصر کے لئے روانہ ہوئے اورجب 'قلزم'' نامی علاقے میں پہنچے جو کہ دوفسطاة، منزلوں کے درمیان ہے وہاں ایک شخص کے گھر میں قیام کیا اس شخص نے اپنے کو خوش نصیب سمجھتے ہو ئے کہ مجھے خدمت کا موقع ملا ہے مالک اشتر کو اپنے اعتماد میں لے لیا اور پھر شہد میں زہر ملا کر شربت بنایا اور مالک اشترکو پلایا اس طرح سے خدا کی یہ تیز تلوار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیام میں چلی گئی اور اپنی جان کو خدا کے حوالے کردیا وہ  اڑتیس ہجری میں سرزمین قلزم پر شہید ہوئے اور وہی پر دفن ہوئے۔
یہ بات مسلم ہے کہ یہ میزیان کوئی معمولی شخص نہیں تھا بلکہ جانا پہچانا ہوا شخص تھا اوراسی وجہ سے مالک اشتر نے اس کے گھر میں قیام کیا تھا اوراسے مالک کے دشمن معاویہ نے پہلے ہی خرید لیا تھا۔(2)
بہرحال جب معاویہ کو مالک اشتر کے قتل کی خبرملی تو وہ منبرپرگیا اورکہا: اے لوگوں ابوطالب کے بیٹے کے پاس دو مضبوط ہاتھ تھے جس میں سے ایک ہاتھ(عمار یاسر) جنگ صفین میں کاٹ دیا گیا اور دوسرا ہاتھ (مالک اشتر)آج کاٹ دیا گیا۔(3)۔


وہ موت جس نے بعض کو ہنسایا اور بعض کو رولایا


مالک اشترکی شہادت پرشامیوں نے خوشی منائی کیونکہ وہ لوگ جنگ صفین کے زمانے سے ہی مالک اشتر سے کینہ رکھے تھے لیکن جب ان کی شہادت کی خبرامام علیہ السلام کو ملی تو آپ بے ساختہ بلند آواز سے رونے لگے اور فرمایا ''علیٰ مثلِکَ فَلْیَبْکِیْنَ الْبَوا کِیْ یاٰمالِکُ'' یعنی تمہارے جیسوں کے لئےعورتیں نوحہ و بکا کریں اس وقت فرمایا،''أین مثلُ مالک؟ یعنی مالک جیسا کہاں ہے؟
پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر فرمائی:''ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جائیں گے،خدا کی تعریف قابل ستائش ہے کہ وہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ہے خدایا میں مالک کی مصیبت کو تیری راہ میں حساب کروں گا کیونکہ اس کی موت آج کے دن کی سب سے بڑی مصیبت ہے مالک پرخدا کی رحمتیں نازل ہوں اس نے اپنے معاہدہ کی وفا کی اوراپنی عمرکو ختم کیا اوراپنے رب سے ملاقات کی، ہم نے پیغمبراسلام کے بعد اپنے کو آمادہ کرلیا تھا کہ ہر مصیبت پر صبر کریں گے اور اس حالت میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مالک کی  شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔(4)
فضیل کہتے ہیں:''جب مالک اشترکی خبر شہادت حضرت علی علیہ السلام کو ملی تو میں ان کی خدمت میں گیا تو میں نے دیکھا کہ آپ بے حد اظہار افسوس کررہے ہیں اورکہہ رہے ہیں خدایا مالک کو بہترین درجات عطا کر، واقعاً مالک کتنی اچھی شخصیت کے حامل تھے، اگر وہ پہاڑ تھے تو ایسا پہاڑ جس کی مثال نہیں اور اگر پتھر تھے تو بہت سخت پتھر کی طرح تھے، خدا کی قسم ،اے مالک تمہاری موت نے پوری دنیا کو لزرہ براندام کردیا اور دوسری دنیا کو شاد و مسرور کردیا مالک جیسوں کی شہادت پرعورتوں کونوحہ پڑھنا چاہیے، کہاں کوئی مالک جیسا ہے؟پھر آگے کہتا ہے کہ علی علیہ السلام مسلسل اظہار افسوس کررہے تھے اور بہت دنوں تک آپ کے چہرۂ انور پرغم کے اثرات نمایاں تھے۔


امام علیہ السلام کا خط محمد بن ابی بکر کے نام


امام علیہ السلام نے جب مصرکی حکومت کی ذمہ داری محمد بن ابی بکر سے لےکر مالک اشترکوسونپی تو محمد کچھ ناراض تھے جب محمد کی ناراضگی کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ نے محمد کو خط لکھا جس میں مالک اشتر کی شہادت کی خبر کے بعد ان کی دلجوئی فرمائی اورلکھا:مجھے خبرملی ہے کہ مالک اشتر کو مصراعزام کرنے کی وجہ سے تم رنجیدہ ہوگئے ہو لیکن میں نے اس کام کو اس لئے انجام نہیں دیا تھا کہ تم نے اپنی ذمہ داریوں میں غفلت یا کوتاہی کی ہے اوراگر میں نے تمہیں مصر کی حکومت سے معزول کیا ہے تو اس کے بدلے میں تمہیں کسی دوسری جگہ کا والی و حاکم قراردوں گا جس کا چلانا بہت زیادہ خرچ نہیں چاہتا اور وہاں کی حکومت تمہارے لئے بہتر ہوگی،جس شخص کو میں نے مصر کی سرداری کے لئے چنا تھا وہ ہم لوگوں کے لئے خیرخواہ اوردشمنوں کے لئے بہت سخت تھا، خدا اس پررحم کرے کہ اپنی زندگی کو بڑے آرام سے گذارا اورموت سے ملاقات کی جب کہ ہم اس سے راضی تھے، خدا بھی اس سے راضی ہوگا اور اسے دوہرا ثواب عطا کرے گا اب اس وقت تم پر لازم ہے کہ دشمن سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو شہر سے باہر بھیج دو اوروہیں پر پڑاؤ ڈالواورعقل و خرد سے امور انجام دو اور جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ، لوگوں کو خدا کی طرف آنے کی دعوت دو اورخدا سے مدد طلب کرو کہ وہ تمھارے اہم کاموں کے لئے کافی ہے اور مصیبت کے وقت تمہارا مددگار ہے۔


عمروعاص کو مصر بھیجنا


معاویہ نے جنگ صفین ختم ہونےاورامیرالمومنین علیہ السلام کی فوج میں اختلاف و تفرقہ ہونے کے بعد خوارج کے ذریعے موقع غنیمت دیکھا کہ عمروعاص کی سرداری میں اپنی فوج کو مصرروانہ کرے تاکہ مصرکو امیرالمومنین علیہ السلام کے قبضے سے چھین لے، اس نے یہ عظیم کام انجام دینے کے لئے بہت سے گروہوں کے سرداروں کو دعوت دی اوران میں سر فہرست عمروعاص تھا معاویہ نے عمروعاص کو مصر بھیجنے سے پہلے مصرمیں امام علیہ السلام کی حکومت کے مخالفین کو خط لکھا اور انہیں اس کام کے لئے آمادہ کیا اور پھرعمروعاص کو بہت زیادہ فوجیوں کے ہمراہ مصر روانہ کیا جب عمروعاص مصرکی سرحد پر پہنچا تو عثمان کے چاہنے والوں نے اس کا استقبال کیا اوراس سے ملحق ہوگئے اورعمروعاص نے وہیں سے مصر کے حاکم کے نام خط لکھا کہ ''مجھےشوق نہیں ہےکہ تم سے جنگ کروں اور تمہارا خون بہاؤں،مصر کے لوگ تمھاری مخالفت پرمتفق ہیں اور تمہاری پیروی کرنے سے پیشمان ہیں''۔ عمروعاص نے اپنے اور معاویہ کے خط کو محمد کے پاس بھیجا مصر کے حاکم نے دونوں خط پڑھنے کے بعد امام علیہ السلام کے پاس بھیج دیا اور اپنے خط میں شام کی فوجی طاقت کو مصر کی سرحد پر پہنچنے کی خبردی اور لکھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں مصر کی حکومت آپ کے ہاتھ میں رہے تو میری پیسے اور فوج سے مدد کیجیے۔
امام علیہ السلام نے مصر کے حاکم کو مقابلہ کرنے کی سفارش کی،پھر محمد بن ابی بکر نےعمروعاص اورمعاویہ کے خط کا جواب دیا اور بالآخر مجبورہوئے کہ لوگوں کو اپنی طرف کرنے کے لئے عمروعاص کی فوج کے استقبال کے لئے جائیں۔ اس کی پہلی فوج میں دو ہزار آدمی تھے جس کی سرداری کنانہ بن بُشر کر رہے تھے اورخود بھی اس کے بعد دوہزار کی فوج لے کر اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے جب مصر کی پہلی فوج شام کی فوج کے روبرو ہوئی تو شام کی فوج کو درہم برہم کردیا لیکن فوج کی کمی کی وجہ سے کمزور پڑگئی، کنانہ اپنے گھوڑے سے اترے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے لگے اورسورہ آل عمران کی ایک سو پینتالیسویں آیت کی تلاوت کرتے کرتے شہید ہوگئے:
''وما کان لنفسٍ أن تموت الاّٰ بِاذنِ اللّٰہ کتاباً مؤ جَّلاً ومَنْ یردْ ثوابَ الدُّ نیا نُؤ تِہِ منھا ومنْ یُردْ ثواب الاً خِرة نُؤتِہِ مِنھا و سَنجِزی الشا کرِین'' (5)
" کوئی نفس بھی اسُ پروردگار کے بغیر نہیں مرسکتا ہے سب کی ایک اجل اور مدّت معین ہے اورجو دنیا ہی میں بدلہ چاہے گا ہم اسے وہ دیں گے اور جوآخرت کا ثواب چاہے گا ہم اسے اس میں سے عطا کر دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو جزا دیں گے۔"


محمد بن ابی بکر کی شہادت


کنانہ بن بشرکی شہادت کی وجہ سے شام کی فوج میں جرأت پیدا ہوگئی اورسب نے یہ طے کیا کہ آگے بڑھتے رہیں اور محمد بن ابی بکر کی چھاونی کی طرف جائیں جب ان کی چھاونی پر پہنچے تو دیکھا کہ محمد کے ساتھی مختلف جگہوں پر منتشرہیں اور وہ ادھرادھر ٹہل رہے تھے یہاں تک کہ ایک ویران جگہ پر پناہ حاصل کی، معاویہ بن حدیج محمد کی جگہ سے با خبر ہوا اور انہیں ایک کھنڈر سے گرفتار کرلیا اوروہاں سے باہر لایا اور''فسطاط'' نامی جگہ پر جہاں عمروعاص کے فوجی تھے پہنچادیا جب کہ عنقریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مرجائیں۔اس وقت حدیج کے بیٹے نے محمد کو بہت برُی باتیں کہیں جسے تحریر کرنے سے پرہیز کررہے ہیں اورآخرمیں اس نے کہا میں تمھاری لاش کو اس مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھوں گا اور پھر جلادوں گا محمد نے جواب دیا تم خدا کے دشمنوں نے اولیاء خدا کے ساتھ کئی مرتبہ ایسا معاملہ انجام دیا ہے مجھے امید ہے کہ خدا اس آگ کو میرے لئے ایسے ہی ٹھنڈی اورباعافیت کردے گا جیسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے کیا تھا اور اسے تمہارے اورتمہارے دوستوں کے لئے وبال بنائے اورخدا تجھے اور تیرے پیشوا معاویہ بن ابو سفیان اورعمروعاص کو ایسی آگ میں جلائے کہ جب بھی چاہے کہ خاموش ہو شعلہ ور ہوجائے، بالآخر معاویہ بن حدیج کو غصّہ آیا اور اس نے محمد کی گردن اڑا دی اور ان کے جسم کو مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈالدیا اور اسے جلادیا۔
محمد بن ابی بکر کی شہادت حضرت علی علیہ السلام کے لئے بہت ہی غمناک تھی اور حضرت نے باچشم گریہ فرمایا۔''وہ میرا بیٹا اور میرے بیٹوں اور میرے بھائی کے بیٹوں کے لئے بھائی تھا۔(6)
  امام علیہ السلام کی فرمائش کے بعد لازم ہے کہ یہ نکتہ بھی بیان کیا جائے کہ محمد بن ابی بکرکی مادر گرامی اسماء بنت عمیس پہلے جعفربن ابی طالب کی شریکہ حیات تھیں اورجناب جعفر طیارعلیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنے چند بچوں کے ہمراہ ابوبکر کی زوجیت میں آگئيں اس بناء پر محمد کی ماں قرارپائیں اورجب ابوبکرکا انتقال ہوگیا توحضرت علی علیہ السلام کی شریکہ حیات بن کر خانوادہ اہل بیت میں شامل ہوگئیں اورامام علیہ السلام سے بھی ایک فرزند پیدا ہوا جس کا نام یحیی تھا۔
محمد بن ابی بکرکی شہادت کے بعد امام علیہ السلام نے بہت زيادہ کوششیں کیں تاکہ کچھ سپاہیوں کو مصرروانہ کریں لیکن اس کام میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔  


منابع:


1- نہج البلاغہ مکتوب نمبر 38، الغارت ج1  ص260  
2- تاریخ ابن کثیر ج7 ص313
3- الغارت ج1 ص 264 ، تاریخ طبری ج2 ص 7،کامل ابن اثیرج 3 ص352
4- الغارت ج1 ص264، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج6 ص77
5- سورہ آل عمران آیت 145
6- اریخ یعقوبی ج2 ص 194


دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: