مواد کا کوڈ۔: 59
ہٹس: 148
تاریخ اشاعت : 18 September 2023 - 10: 36
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (20)
سقیفہ کی الجھنیں خلیفہ کے انتخاب کی وجہ سے ختم ہوئیں اورابوبکر نے خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی. حضرت علی علیہ السلام اپنے باوفا اصحاب کے ہمراہ حکومت کے جاہ وحشتم سے دورہوگئے لیکن اپنی نوارنی فکروں اورعام لوگوں کے ذہنوں کی فکروآگہی اور اتحاد و اتفاق کی برقراری کے لئے حکومت کی مخالفت نہیں کی۔

حضرت علی علیہ السلام اور فدک


سقیفہ کی الجھنیں خلیفہ کے انتخاب کی وجہ سے ختم ہوئیں اورابوبکر نے خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی. حضرت علی علیہ السلام اپنے باوفا اصحاب کے ہمراہ حکومت کے جاہ وحشتم سے دورہوگئے لیکن اپنی نوارنی فکروں اورعام لوگوں کے ذہنوں کی فکروآگہی اور اتحاد و اتفاق کی برقراری کے لئے حکومت کی مخالفت نہیں کی بلکہ قرآن کریم کی تفسیر و تعلیمات اوراعلی مفاہیم، صحیح فیصلوں اوراہل کتاب کے دانشمندوں کے ساتھ استدلال و احتجاجات وغیرہ اوراجتماعی و انفرادی خدمات انجام دینے لگے۔
حضرت علی علیہ السلام تمام مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ باکمال تھے اور کبھی بھی یہ ممکن نہ تھا کہ آپ کے دشمن آپ سے یہ کمالات چھین سکیں،آپ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد، وصی بلافصل اور مجاہد نامدار اور اسلام کے بڑے جانباز اورشہرعلم پیغمبرکےدروازہ تھے، کسی بھی شخص میں اتنی ہمت نہیں ہے جو اسلام میں ان کی سبقت اورآپ کے وسیع علم اورقرآن وحدیث اصول و فروع دین اور آسمانی کتابوں پر تسلط کو انکارکرسکے یا ان تمام فضائل کوآپ سے چھین سکے۔
اورانہیں فضائل کے درمیان امام علیہ السلام ایک اوراہم امتیاز رکھتے تھے کہ ممکن تھا کہ آئندہ، خلفاء اس کی وجہ سے مشکل میں گرفتارہوتے اوروہ اقتصادی و آمدنی جیسی قدرت تھی جوفدک کے ذریعے آپ کو حاصل ہو رہی تھی۔ اسی وجہ سے خلیفہ نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ارادہ کیا کہ اس قدرت کوامام کے ہاتھوں سے لے لے، کیونکہ یہ امتیاز دوسرے امتیازات کی طرح نہ تھا جو امام علیہ السلام کے ہاتھوں سے نہ لیا جاسکتا تھا۔


فدک کا جغرافیہ


فدک،ایک بہترین اور آباد سرزمین ہے جو خیبر کے قریب میں واقع ہے اور مدینہ منورہ سے فدک کا فاصلہ تقریباً ایک سوچالیس کیلومیٹراور قلعہ خیبر کے بعد حجاز کے یہودیوں کے ٹھہرنے کی جگہ کے نام سے مشہورتھا اسی جگہ کو قریۂ ''فدک'' کہتے ہیں۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے لشکر کو" خیبر'' اور''وادی القریٰ'' اور'' تیما '' میں شکست دینے کے بعد جب مدینہ منورہ کے شمال میں ایک بڑے خلاء کااحساس کیا تو اسے اسلام کے سپاہیوں سے پرکردیا اوراس سرزمین سے یہودیوں کی طاقت و قدرت کو ختم کرنے کے لئے جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرہ کا سبب اوراسلام کی مخالفت شمارہوتی تھی ایک سفیر جس کا نام ''محیط'' تھا اسے فدک کے سردار کے پاس بھیجا۔ یوشع بن نون جو اس فدک دیہات کا رئیس تھا اس نے صلح و آشتی کو جنگ پرترجیح دیا اور وہاں کے رہنے والے اس بات پرراضی ہوگئے کہ ہرسال کا آدھا غلہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودیں گے اوراسلام کے پرچم تلے زندگی بسرکریں گے اورمسلمانوں کے خلاف سازشیں وغیرہ نہیں کریں گے تو اسلامی حکومت نے بھی ان کی حفاظت و سلامتی کی ذمہ داری قبول کرلی۔
اسلامی قانون کے مطابق ہروہ زمین جو جنگ و جدال کے ذریعے حاصل ہو وہ تمام مسلمانوں کی ملکیت ہوتی ہے اوراس کی ذمہ داری اورنظارت حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن وہ زمینیں جو بغیر کسی حملے اور جنگ کے مسلمانوں کو حاصل ہوں وہ پیغمبریا اس کے بعد کے امام کی ملکیت ہوتی ہے اورجو قوانین و شرائط اسلام نے معین کئے ہیں انہیں موارد میں خرچ ہوں اوران موارد میں سے ایک مورد یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورامام اپنے قریبی افراد کی شرعی حاجتوں کو پورا کرنے اور ان کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لئے خرچ کریں۔(1)


فدک پیغمبراسلام کی طرف سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ہدیہ


شیعہ محدثین و مورخین اوراہل سنت کے دانشمندوں کا ایک گروہ تحریرکرتا ہے
جب آیت''وَآتِ ذَی القُربی حَقَّهُ وَ المِسکینَ وَ ابنَ السَّبیل (2) نازل ہوئی اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک کو ان کے حوالے کیا(3) اوراس مطلب کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک بزرگ صحابی ابوسعیدخدری نے نقل کیا ہے۔
تمام مفسرین شیعہ وسنی کا اس بات پراتفاق ہے کہ یہ آیت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے قریبی رشتہ داروں کی شان میں نازل ہوئی ہے اور آپ کی بیٹی ''ذا القربی'' کی بہترین مصداق ہیں چونکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں کا حق انہیں دیدو یہاں تک کہ جس وقت شام کے ایک شخص نے حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سے کہا کہ آپ اپنا تعارف کرائیے اس وقت آپ نے شامیوں کے سامنے اپنے کو پہچنوانے کے لئے آیت فوق کی تلاوت کی اوریہ مطلب مسلمانوں کے درمیان اتنا واضح و روشن تھا کہ اس شامی نے تصدیق کے طور پر سرکو ہلاتے ہوئے حضرت سے کہا کہ آپ کی رسول اسلام سے قربت اور خاص رشتہ داری کی وجہ سے ہی خدا نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ تمہارے حق کو تمہیں دیدیں''(4)
خلاصہ مطلب یہ کہ مندرجہ بالا آیت کریمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے فرزندوں کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق بھی ہے لیکن یہ بات کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک کو اپنی بیٹی کوبطورہدیہ دیا۔ تمام شیعہ محققین اورکچھ سنی محققین کے درمیان مورد اتفاق ہے کہ پیغمبراسلام نے فدک اپنی بیٹی کو بطور ہدیہ دیا۔


 پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی کو کیوں دیا؟


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ زندگی اورآپ کا خاندان اس بات کی گواہی دیتاہے کہ وہ لوگ کبھی بھی دنیا کے خواہشمند اورمحب نہیں رہے اور جو چیز ان کے درمیان قیمتی نہ تھی وہ دنیا کی دولت تھی۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی کو دیدیا اوراسے حضرت علی علیہ السلام کے خاندان سے مخصوص کردیا اب یہاں پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ آخر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کوکیوں دیا،اس سوال کے جواب کی کئی وجہیں ذکر ہوئی ہیں۔
1۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی تمام ذمہ داریاں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھی اوریہ مقام و منصب بہت سنگین اورزیادہ دولت کا محتاج تھا حضرت علی علیہ السلام مذہب خلافت کے تمام امور کی دیکھ بھال کے لئے فدک سے حاصل ہوئی آمدنی سے اچھے طریقے سے ادارہ کرسکتے تھے مگر لگتا ہے کہ خلفاء پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیشنگوئی سے آگاہ ہوگئے تھے کہ خلافت کی مسند پر بیٹھتے ہی فدک کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خاندان سے چھین لیا تھا۔
2۔ خاندان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس میں مظہرکامل آپ کی بیٹی اورآپ کے دونورچشم حضرت حسن اورحضرت حسین علیہماالسلام تھے ضروری تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد عزت کے ساتھ زندگی بسرکریں اوررسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و شرافت وحیثیت اوران کا خاندان ہر طرح سے محفوظ رہے اسی مقصد کے تحت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی کو دیا تھا۔
3۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جانتے تھے کہ ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام سے اپنے دل میں کینہ رکھے ہوئے ہے کیونکہ ان کے بہت سے رشتہ دار و احباب مختلف جنگوں میں حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے مارے گئے ہیں ان کے دلوں سے کینہ دور کرنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام مالی امداد کرکے ان کی دلجوئی کرتے اور ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرتے اور اسی طرح بیواؤں اور مفلسوں اورلاچاروں کی مدد کرتے اور اس طرح سے ان تمام موانع کو جو آپ کو خلافت سے قریب ہونے سے روک رہے تھے ان کو دور کرتے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ ظاہری طور پر فدک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیا تھا لیکن اس کی آمدنی کا اختیارصاحب ولایت کے ہاتھوں میں تھا تا کہ اس کے ذریعے سے اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے اوراسلام و مسلمین کے فائدے کے لئے خرچ کرتے۔


فدک کی آمدنی


تاریخ پرنگاہ کرنے کے بعد ان تینوں وجہوں سے انسان کا ذہن تقویت پاتا ہے کیونکہ فدک ایک سرسبز و شاداب اورعمدہ زمین ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے مقصد کی کامیابی کے لئے بہترین معاون ثابت ہوتا۔
مشہورمورخ حلبی اپنی کتاب سیرۂ حلبی میں لکھتے ہیں:
 " ابوبکربن قحافہ مائل تھے کہ فدک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے پاس رہے اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ملکیت کو اس نے ایک کاغذ پر لکھ دیا لیکن عمربن خطاب نے شہزادی اسلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ورقہ دینے سے منع کردیا اورابوبکر کی طرف رخ کرکے کہا کہ آئندہ تمہیں فدک کی آمدنی کی سخت ضرورت پڑے گی کیونکہ اگر مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف قیام کریں تو جنگ کے تمام اخراجات کو کہاں سے پورا کرو گے؟(5)
اس جملے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فدک کی آمدنی اس قدرزیادہ تھی کہ دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں جواخراجات ہوتے اس کو پورا کردیتی،اسی وجہ سے ضروری تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس اقتصادی قدرت کو حضرت علی علیہ السلام کے اختیار میں دیدیتے۔
مشہور مورخ شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:
میں نے مذہب امامیہ کے ایک دانشور سے فدک کے بارے میں کہا کہ فدک کا علاقہ اتنا وسیع نہ تھا اوراتنی کم زمین تھی کہ جس میں چند کھجور کے درخت کے علاوہ کچھ نہ تھا لہذا مخالفین فاطمہ کے لئے اتنا اہم نہ تھا کہ اس کی لالچ کرتے،تو انہوں نے میرے جواب میں کہا کہ تم اس عقیدے میں غلطی کررہے ہو وہاں پر کھجور کے درخت آج کے درختوں سے کم نہ تھے اورمکمل طریقے سے اس حاصل خیز زمین سے خاندان پیغمبر کواستفادہ کرنے سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ ہوکہ حضرت علی علیہ السلام اس کی آمدنی سے خلافت کے خلاف قیام کریں. اس لئے نہ صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو فدک سے محروم کیا بلکہ تمام بنی ہاشم اورعبدالمطلب کے فرزندوں کو ان کے شرعی حقوق (خمس،غنیمت) سے بھی محروم کردیا۔ وہ لوگ جوہمیشہ اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں اورحاجتوں کو پورا کرنے لئے کوششیں کرتے ہیں، ایسی حالت میں جنگ و جدال کی فکرسے اپنے ذہنوں کو خراب نہیں کرتے۔(6)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 سوالات:


1- ابوبکر کے انتخاب کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے کیا اقدامات انجام دیئے۔؟
2- حضرت علی علیہ السلام کا کون سا اقدام خلافت کے لئے موجب اشکال بنا۔؟
3- فدک کی کیا خصوصیتیں ہیں۔؟
4- اسلامی فقہ میں " فئي" کا اطلاق کس چیز پر ہوتا ہے۔؟
5- سورہ اسراء آيت چھبیس کا شان نزول کیا ہے ۔؟
6- پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باغ فدک اپنی بیٹی کو کیوں دیا۔؟


منابع:


1- سورۂ حشرآیت 6 و 7 اور فقہ کی کتابوں میں باب جہاد بحث ''فیٔ'' میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔
2- سورۂ اسراء آیت 26 "یعنی اپنے رشتہ داروں، مسکینوں اور مفلسوں کے حق کو ادا کرو۔
3- تفسیرمجمع البیان ج3 ص 411، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج16 ص 268، تفسیرالدرالمنثور ج4 ص 177
4-  تفسیرالدر المنثور ج4 ص 176
5- سیرۂ حلبی ج3 ص 400
6- شرح نہج البلاغہ ج16 ص 236

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: