مواد کا کوڈ۔: 69
ہٹس: 1847
تاریخ اشاعت : 29 September 2023 - 12: 13
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (30)
جو پانچ وجہیں ہم نے بیان کی ہیں اس کا سبب یہ ہوا کہ تمام اسلامی مملکتوں سے اعتراضات ہونا شروع ہوگئے اورخلیفہ اور اس کے تمام نمائندوں پر الزامات لگنے لگے اوران تمام پر یہ الزام لگایا گيا کہ یہ سب کے سب اسلامی راستے سے منحرف ہوگئے ہیں۔

مقدمہ کا واقعہ اورعثمان کا قتل
پانچوں وجہوں کا عکس العمل


جو پانچ وجہیں ہم نے بیان کی ہیں اس کا سبب یہ ہوا کہ تمام اسلامی مملکتوں سے اعتراضات ہونا شروع ہوگئے اورخلیفہ اور اس کے تمام نمائندوں پر الزامات لگنے لگے اوران تمام پر یہ الزام لگایا گيا کہ یہ سب کے سب اسلامی راستے سے منحرف ہوگئے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ صحابیوں اورمسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ سے درخواست کیا کہ اپنی روش کو بدل دیں یا یہ کہ مسند خلافت سے دورہوجائیں۔ اس مخالفت و اعتراض کی عظمت اس طرح ظاہرہوگی کہ جب ہم بعض اعتراض کرنے والوں کے نام اور ان کی گفتگو سے آشنا ہوں گے۔
1۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے عثمان کے طور طریقے پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے چاہے وہ قتل سے پہلے ہویا قتل کے بعد کی گفتگو ہو۔ امام علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دوسرے دن ایک تقریر کے دوران فرمایا:
" ألا إنَّ کُلَّ قَطیعَۀٍ أقتَعَها عٌثمان وَ کُلَّ مالٍ أعطاهُ مِن مالِ الله فَهُوَ مَردوُدٌ فی بَیتِ المالِ۔" (1)
"ہروہ زمین جسے عثمان نے دوسروں کودیدیا ہے اور خدا کے مال میں سے جو بھی مال کسی کو دیا ہے ضروری ہے کہ وہ بیت المال کو واپس کردے۔ "  
امام علیہ السلام کا یہ کلام اوردوسرے کلام خلیفہ کے کاموں کو روشن کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ واضح وہ کلمات ہیں جو آپ نے خطبہ شقشقیہ میں بیان کیا ہے۔
" إلی أن قامَ ثالِثُ القَومِ نافِجاً حِضْنَیهِ، بَینَ نِثیلِهِ وَ مُعتَلَفِهِ، وَ قامَ مَعَهُ بَنوا أبیهِ یَخضَمونَ مالَ الله خِضمةَ الإبِلِ نَبتَۀَ الرَّبیع۔" (2)
"غرض اس قوم کا تیسرا آدمی پیٹ پھیلائے اپنے گوبراورچارے کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے بھائی بند کھڑے ہوئے جو خدا کا مال اس طرح خوش ہو کرکھا رہے تھے جیسے اونٹ موسم بہار کی گھاس خوش ہوہو کر کھاتا ہے ۔
 2۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی عائشہ نے سب سے زیادہ عثمان کی غلطیوں کو شمار کیا ہے جب عمار پرعثمان کی طرف سے ظلم و ستم ہوا اورعائشہ کو اس کی خبرملی تو پیغمبراسلام کے لباس اورنعلین کو باہرلائیں اور کہا کہ ابھی پیغمبراسلام کا لباس و کفش پرانا نہیں ہوا ہے لیکن تم نے ان کی سنت کو فراموش کردیا ہے۔
ان دنوں جب کہ مصریوں اور صحابیوں کے کچھ گروہ نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اس وقت عائشہ مدینہ چھوڑ کر خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئیں تھیں اس وقت مروان بن حکم، زید بن ثابت اورعبد الرحمن بن عتاب نے عائشہ سے درخواست کی کہ اپنا سفرملتوی کردیں کیونکہ مدینہ میں ان کے رہنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ عثمان کے سر سے یہ بلا ٹل جائے۔ عائشہ نے نہ صرف ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا بلکہ کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کاش تمہارے اور تمہارے دوستوں کہ جس کی تم مدد کر رہے ہو، کے پیر میں پتھر ہوتا تو تم دونوں کو دریا میں ڈال دیتی، یا اسے ایک بوریہ میں ڈال دیتی اوراس کے رنج و غم کو برداشت کرتی اوردریا میں ڈال دیتی۔(3)
عثمان کے بارے میں عائشہ نے اس سے بھی زیادہ باتیں کہی ہیں، بس اتنا ہی کافی ہے کہ جب تک وہ عثمان کے قتل اورعلی علیہ السلام کی بیعت سے باخبرنہ تھی مستقل عثمان پراعتراض و تنقید کررہی تھیں لیکن جب حج کے اعمال سے فارغ ہوئیں اور مدینہ منورہ کا سفر کیا اور درمیان راستہ ''سرف'' نامی مقام پرعثمان کے قتل اوربیعت علی علیہ السلام سے باخبر ہوئیں تو فوراً فکروں کو بدل دیا اور کہا کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، یہ جملہ کہا اور لوگوں سے کہا کہ مجھے مکہ واپس لے چلو کیونکہ عثمان بے گناہ و مظلوم مارا گیا ہے اور میں اس کا بدلہ لوں گی۔
اس وقت جس نے انہیں عثمان کے قتل کی خبر دی تھی اس نے بڑی ہی جرآت کے ساتھ کہا تم وہ پہلی فرد ہو جس نے اپنی بات کو بدل دیا ہے تم پہلے کہا کرتی تھی کہ اس " نعثل" یعنی عثمان کو قتل کردو کیونکہ اس نے خداوندعالم کے آئين کا انکار کیا ہے اب کیسے کہہ رہی ہو کہ وہ مظلوم مارا گیا ہے۔ ؟(4)
عائشہ نے کہا کہ جن لوگوں نے انہیں قتل کیا ہے اس کے توبہ کرنے کے بعد انہیں قتل کیا ہے اور میری دوسری بات پہلے والی بات سے زیادہ بہتر ہے۔ جب مکہ مکرمہ پہنچی تو سیدھے مسجد کی طرف گئیں اور حجر اسماعیل پر پردہ ڈالا اور وہیں قیام کیا لوگ ان کے اطراف میں جمع ہوگئے اوروہ کہہ رہی تھیں کہ عثمان بے گناہ مارے گئے ہیں اور میں ان کا بدلہ ضرور لوں گی۔(5)
3۔ عبدالرحمن بن عوف،عثمان پراعتراض کرنے والا دوسرا شخص تھا وہ ایسی شخصیت ہے کہ چھ آدمیوں پرمشتمل شوریٰ میں عثمان کی کامیابی اسی کے مکرو فریب سے ہوئی تھی۔
جس وقت عثمان نے اپنے تعہد کو جو سنت پیغمبر اورشیخین کی روش پر چلنے کے لئے کیا تھا توڑ ڈالا تو لوگوں نے عبد الرحمن پراعتراض کیا اور کہا یہ سب خرابیاں تمہاری وجہ سے ہے تو اس نے جواب میں کہا مجھے اس بات کی امید نہ تھی کہ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی اب میں اس سے کبھی بھی گفتگو نہیں کروں گا اور پھرعبد الرحمن نے اس دن سے آخر دم تک اس سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ جب عثمان عبد الرحمن کی حالت بیماری میں عیادت کرنے آیا تو اس وقت بھی عبد الرحمن نے خلیفہ کی طرف سے اپنے چہرے کو موڑ لیا اور اس سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوا۔(6)
جی ہاں،وہ افراد جن لوگوں نے خلیفہ کے خلاف اعتراضات کئے ان کی تعداد اوراس کے قتل کے مقدمات فراہم کئے بہتر ہے کہ ان کے نام یہاں لکھے جائیں۔ دو اہم چیزوں کا ذکر کرنا ہے وہ یہ کہ طلحہ و زبیر نے سب سے پہلے اس پر اعتراض کیا، بہرحال لوگوں کا نام اورمخالفین کی گفتگوؤں اورخلیفہ کو اس کے منصب سے گرانے والے افراد وغیرہ کے نام بہت زیادہ ہیں جس کے لئے تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
آخرکارصحابہ اوراسلامی ملکوں کے مسلمانوں کی مخالفت نے اپنا کام کردکھایا اور لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔


عثمان کے گھر کا محاصرہ


حملہ اوراختلاف و شورش کی پانچوں صورتوں نے اپنا کام کر دکھایا اورعثمان کی اپنے نقائص اوراشکالات وغیرہ سے بے توجہی ہی سبب بنی کہ اسلام کے اہم مراکز، مثلاً کوفہ، بصرہ، مصر، کچھ گروہ امربالمعروف اورنہی عن المنکراورخلیفہ کو کتاب الہی اور سنت پیغمبر و سیرت شیخین کی مخالفت سے روکنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اور مدینے میں رہنے والے اپنے ہمفکروں کے ساتھ کوئی راہ حل تلاش کریں کہ خلیفہ توبہ کرے اور پھر سے حقیقی اسلام قبول کرے یا مسند خلافت سے دور ہو جائے۔ بلاذری اپنی کتاب ''انساب الاشراف'' میں لکھتے ہیں:
سنہ چونتیس ہجری قمری میں خلیفہ کی سیرت سے مخالفت کرنے والے تین شہروں سے کوفہ، بصرہ اورمصرکے لوگ مسجدالحرام میں جمع ہوئے اورعثمان کے کاموں کا تذکرہ کرنے لگے اور سب نے ارادہ کیا کہ خلیفہ کے برے کاموں پر گواہ و شاہد بن کر اپنے اپنے شہرواپس چلے جائیں اورجو لوگ اس سلسلے میں ان کے ہم خیال ہیں ان سے گفتگو کریں اورآئندہ سال انہیں دنوں میں آپس میں ملاقات کریں اور خلیفہ کے بارے میں کوئی تجویز رکھیں۔ اگر وہ اپنے برے کاموں سے باز آجائیں تو ان کے حال پرچھوڑ دیں لیکن اگر باز نہ آئیں تو اسے اس منصب سے دور کردیں۔
اسی وجہ سے دوسرے سال (یعنی سنہ پینتیس ہجری قمری میں) مالک اشتر کی سرداری میں کوفہ سے ایک ہزار کا لشکر، حُکیم بن جبلَّہ عبدی کی سرداری میں بصرہ سے ڈیڑھ سو آدمیوں کا لشکر، کنانہ بن بشر سکوفی تجیبی اورعمرو بدیل خزاعی کی سرپرستی میں مصر سے چار سو یا اس سے زیاد ہ افراد کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا اور مہاجر و انصار کے اس عظیم لشکر سے جا ملا جو خلیفہ کی روش کے بہت سخت مخالف تھے۔(7)
مشہور مورخ مسعودی لکھتے ہیں:
چونکہ عبد اللہ بن مسعود، عمار یاسراور محمد بن ابی بکر خلیفہ کی نظر میں اہم نہ تھے، قبیلۂ ''بنی زُھر'' عبد اللہ کی رہنمائی میں اور''بنی مخزوم'' عمار کی حمایت میں اور " تیم" محمد بن ابی بکر کی وجہ سے اور ان تین گروہوں کے علاوہ دوسرے افراد بھی انقلابیوں کے ساتھ مل گئے اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔  مصر کی ہیئت(انجمن) نے خلیفہ کو خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
اما بعد: خداوندعالم کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اس کو بدل ڈالیں، خدا کے واسطے خدا کے واسطے، پھر بھی خدا کے واسطے اپنے راستے کو آخرت سے نہ بھلاؤ ، خدا کی قسم، ہم لوگ خدا کے لئے غمگین ہوتے ہیں اور خدا ہی کے لئے خوشحال ہوتے ہیں ہم اپنی اپنی تلواروں کو اپنے کاندھوں سے اتارکرزمین پر نہیں رکھیں گے یہاں تک کہ تمہارے سچے توبہ کی خبر ہم تک نہ پہنچ جائے یہی ہماری گفتگو اور ہمارا کام ہے۔(8)


منابع:


1- نہج البلاغہ عبدہ خطبہ 14
2- نہج البلاغہ عبدہ خطبہ 3
3- انساب الاشراف ج5 ص 48
4- سفینۃ البحار منقول از نہایہ
5- تاریخ طبری ج3 ص 477
6- انساب الاشراف ج5 ص 48
7- الغدیر ج9 ص 168
8- مروج الذہب  ج3 ص 88 طبع بیروت سال 1970

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: