مواد کا کوڈ۔: 66
ہٹس: 1888
تاریخ اشاعت : 26 September 2023 - 23: 04
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (27)
خلفاء ثلاثہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام منصب خلافت و رہبری پرفائز ہوئے اوراس دوران آپ بہت سے حادثات اور نشیب و فراز سے دوچار ہوئے، ہر چیز سے پہلے اس نکتہ کی جانب توجہ کرنا بے حد ضروری ہے کہ آخرکیا وجہ ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے بعد عوام حضرت علی علیہ السلام کی طرف کیوں متوجہ ہوئی اور آپ کی خلافت کو قبول کیا۔؟

حضرت علی علیہ السلام کی ظاہری خلافت اور حکومت عثمان کا خاتمہ


خلفاء ثلاثہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام منصب خلافت و رہبری پرفائز ہوئے اوراس دوران آپ بہت سے حادثات اور نشیب و فراز سے دوچار ہوئے، ہر چیز سے پہلے اس نکتہ کی جانب توجہ کرنا بے حد ضروری ہے کہ آخرکیا وجہ ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے بعد عوام حضرت علی علیہ السلام کی طرف کیوں متوجہ ہوئی اور آپ کی خلافت کو قبول کیا۔؟ 
حقیقت تویہ ہے کہ امام علیہ السلام کے چاہنے والے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد بہت اقلیت میں تھے اورمہاجرین وانصار میں سے مومن و صالح افراد کے علاوہ کوئی بھی آپ کی خلافت کا خواہاں نہیں تھا لیکن خلافت اسلامی کے پچیس برس گذرجانے کے بعد تاریخ نے ایسی کروٹ بدلی کہ تمام لوگوں کی فکریں علی علیہ السلام کےعلاوہ کسی پرنہ تھیں۔ عثمان کے قتل کے بعد تمام مسلمان شورو ولولہ اور بلند آواز کے ساتھ امام علیہ السلام کے درازے پر جمع ہو گئے اور بیعت کرنے کے لئے بہت زیادہ اصرارکرنے لگے۔ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کے راغب ہونے کی سب سے اہم وجہ کوخلیفہ سوم کی خلافت کے زمانے کے تلخ حادثوں کی جستجو کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے ایسے واقعات جو خود اس کے قتل کا سبب بنے اور مصری اورعراقی انقلابیوں کو اس بات پرمعین کیا کہ جب تک خلافت اسلامی کا کام ایک نہ ہو جائے اپنے وطن واپس نہیں جا سکتے لہذا ان لوگوں نے اسے قتل کردیا۔
عثمان کے مقابلے میں قیام کرنے کی اصلی وجہ،عثمان کا اموی خاندان سے خاص لگاؤ اورالفت تھی، وہ خود اسی خاندان کا ایک فرد تھا وہ اس نجس و ناپاک خاندان کی عزت واکرام کے علاوہ کتاب وسنت کی بے حرمتی کرنے میں اپنے پہلے کے دو خلیفہ سے بھی بے حد آگے تھا اس کا یہ مزاج اورخاندان امیہ سے بے پناہ لگاؤ والفت کی خبر سے ہرایک واقف تھا،جس وقت خلیفئہ دوم نے شوریٰ کے عہدہ داروں کا انتخاب کیا تو عثمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
میں دیکھ رہا ہوں کہ قریش نے تمہیں اپنا رہبرچن لیا ہے اور تم نے بنی امیہ اور بنی ابی معط کو لوگوں پر مسلط کردیا ہے اور بیت المال کو انہیں لوگوں سے مخصوص کردیا ہے اس وقت عرب کے خطرناک گروہ تم پر حملہ کریں گے اور تمہیں گھر کے اندر قتل کردیں گے۔(1)
بنی امیہ جوعثمان کے مزاج سے واقف تھے انہوں نے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد اس کو اپنے حصار میں لے لیا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسلامی منصب اورمقام ان کے درمیان تقسیم ہوگیا اوران لوگوں کی جرأت وہمت اس حد تک بڑھ گئی کہ ابوسفیان قبرستان احد گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب حمزہ علیہ السلام کی قبر پر جو ابوسفیان سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے ،ٹھوکرمارکر کہتا ہے" ابو یعلی، اٹھو اور دیکھو کہ جس چیز کے لئے تم نے ہم سے جنگ کی تھی اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے''۔
خلیفہ سوم کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں بنی امیہ کے افراد ایک جگہ پر جمع ہوئے ابوسفیان ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:
اس وقت جب کہ خلافت قبیلہ تیم اورعدی کے بعد تمہارے ہاتھوں تک پہنچی ہے ہوشیار رہو کہ خلافت تمہارے خاندان سے باہرنہ جائے اور اسے ایک کے بعد دوسرے تک پہنچاتے رہو کیونکہ خلافت کا مقصد حکومت اور رہبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے۔(2)
ابوسفیان کے اس کلام نے خلیفہ کی شخصیت وحیثیت کوزبردست نقصان پہنچایا جو لوگ اس میں حاضر تھے انہوں نے اس کلام کوپھیلانے سے پرہیزکیا لیکن آخر کار حقیقت نے اپنا کام کردیکھایا۔ اسلام کے خلیفہ کی شان یہ تھی کہ وہ ابوسفیان کوادب سکھاتا اور مرتد کی حد اس پر جاری کرتا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ صرف اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اکثروبیشترابوسفیان پر لطف ومہربانی کرتا تھا اور بہت زیادہ مال غنیمت بطور تحفہ دیتا تھا۔


حملہ کرنے کی علت


خلیفہ دوم نے جس شوریٰ کا انتخاب کیا تھا اس شوری کے ذریعے تین محرم سن چوبیس   ہجری کوعثمان منصب خلافت کے لئے منتخب ہوئے اور بارہ سال حکومت کرنے کے بعد اٹھارہ ذی الحجہ سن پینتیس ہجری قمری کومصراورعراق کے انقلابیوں مہاجر و انصار کے بعض گروہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
اسلام کے معتبرمورخین نے عثمان کے سقوط کرنے کی علت اورمسلمانوں کے بعض گروہ کے انقلاب کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے اگر چہ بعض مورخین نے مقام خلافت کے احترام میں ان واقعات کے رونما ہونے کی علت کی وضاحت کرنے سے پرہیزکیا ہے، جی ہاں مندرجہ ذیل وجوہات کو انقلاب کی بنیاد اور مسلمانوں کے بعض خطرناک گروہوں کے حملہ کرنے کی علت مان سکتے ہیں ۔
1۔ حدود الہی کا جاری نہ ہونا
2۔ بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا
3۔ اموی حکومت کی تشکیل اور اسلامی منصبوں پرغیر شائستہ افراد کا تقرر
4۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ کو مصیبت و تکلیف دینا جو خلیفہ اوراس کے دوستوں پر تنقید کرتے تھے۔
5۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابیوں کو دربدر کرنا جو خلیفہ کی نگاہوں میں اس کے افکار و پروگرام میں مضرتھے ۔


پہلی وجہ: حدود الہی کا جاری نہ ہونا


خلیفہ نے اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ کو کوفہ کا گورنرمعین کیا وہ ایسا شخص تھا جس کے بارے میں قرآن مجید نے دو جگہ پر اس کے فسق وفجور اور اسلامی احکام سے سرکشی وبغاوت کا تذکرہ کیا ہے۔
سورہ حجرات کی چھٹیں اور سورہ سجدہ کی اٹھارہویں آیتیں مفسرین کے اتفاق کے مطابق اسی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور پروردگار عالم نے صراحت کے ساتھ اسے فاسق کہا ہے۔
پہلی آیت کریمہ میں فرماتا ہے: " یا أیُّها الَّذینَ آمَنوا إنْ جائَکُم فاسِقٌ بِنَبَأ فَتَبَیَّنُوا " ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو۔"
اورآیت" " أ فَمَن کانَ مُؤمِناً کَمَن کانَ فاسِقاً لا یَستَوونَ۔" کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے اس کے مثل ہو جائے گا جو فاسق ہے ہرگز نہیں دونوں برابر نہیں پو سکتے۔"
تمام مفسرین کااتفاق ہے کہ یہ دونوں آیتیں اسی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور دوسری والی آیت نازل ہونے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہا۔
أنزَلَ اللهُ فِی الکِتابِ العَزیزِ      فی علیٍ وَ فِی الوَلیدِ قُرآنا
          فَتَبَیَّنوا الوَلیدَ إذ ذاکَ فِسقاً        وَ علی مُتَبَوَء صَدَقَ ایمانا           (3) 
" خداوندعالم نے قرآن کریم میں علی علیہ السلام اور ولید کے بارے میں آیت نازل کی ہے پس تحقیق کرو کہ اس آیت کریمہ میں فاسق سے مراد ولید اور مومن سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔"
فاسق کی نگاہ میں جو چیزقابل اہمیت نہیں ہے وہ حدود الہی اوراعلی مقام و منصب کی رعایت نہ کرنا ہے، اس زمانے کے حاکم سیاسی امور کی دیکھ بھال کے علاوہ جمعہ وجماعت کی نمازبھی پڑھاتے تھے اس نالائق حاکم (ولید) نے نشے کی حالت میں مست نمازصبح کو چہاررکعت کے ساتھ پڑھا دیا اورمحراب تک کو نجس کر دیا،وہ اتنا زیادہ نشے میں مد ہوش تھا کہ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے انگو ٹھی اتار لی اور اسے احساس تک نہ ہوا۔
کوفہ کے لوگ شکایت کرنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اوراس واقعہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی لیکن افسوس کہ خلیفہ نے نہ یہ کہ صرف ان کی شکایت نہ سنی بلکہ ان لوگوں کو دھمکی بھی دی اورکہا: کیا تم نے دیکھا ہے کہ میرے بھائی نے شراب پیا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہم نے اس کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا ہے لیکن اسے مستی کےعالم میں دیکھا ہےاوراس کے ہاتھوں سے انگوٹھی اتارلی مگر وہ متوجہ نہیں ہوا اس حادثہ کے گواہ کچھ مومن وغیور افراد بھی تھے ان لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام اورعائشہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا،عائشہ جو عثمان سے سخت ناراض تھیں، اس نے کہا عثمان نے خدا کے احکام کو ترک کردیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے ۔
امیرالمومنین حضرت عل علیہ السلام نے عثمان سے ملاقات کی اورخلیفہ دوم کی وہ بات جواس نے شوری کے دن اس کے بارے میں کہی تھی اسے یاد دلایا اورفرمایا:بنی امیہ کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط نہ کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ولید کو گورنری کے منصب سے دور کردو اور اس پر حد الہی جاری کرو۔
طلحہ اور زبیرنے بھی ولید کے منتخب ہونے پراعتراض کیا اور خلیفہ سے کہا کہ اس کو تازیانہ لگایا جائے خلیفہ نے تمام لوگوں کی فکروں سے مجبورآکر سعید بن العاص کو جو بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ سے تھا کوفہ کی گورنری کے لئے منتخب کیا،جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تواس نے محراب ومنبر اور دارالامارہ کو پاک کرایا اور ولید کو مدینہ بھیج دیا ۔
صرف ولید کو معزول کرنے سے ہی لوگ راضی نہ ہوئے بلکہ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ خلیفہ کوچاہئیے کہ جوسزا اسلام نے شراب پینے والے کے لئے معین کی ہے اپنے بھائی پروہ حد جاری کرے،عثمان چونکہ اپنے بھائی کو بہت چاہتا تھا لہٰذا اس نے اُسے قیمتی لباس پہنایا اوراسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا تا کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص اس پرحد الہی کو جاری کرے جو لوگ مائل تھے کہ اس پر حد جاری کریں. ولید نے انہیں دھمکی دی تھی .بالآخرامام علی علیہ السلام نے تازیانہ اپنے ہاتھ میں لیا اوربغیر تاخیرکے اس پرحد جاری کی اور اس کی دھمکی اور ناراضگی کی کوئی پرواہ نہ کی۔(4)


دوسری وجہ: بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا


اگرچہ تاریخ نے ان تمام چیزوں کو نہیں لکھا ہے یہاں تک کہ طبری نے بھی کئی مرتبہ اس بات کو صراحت سے کہا ہے کہ" میں نے اکثر لوگوں کے تحمل نہ کرنے کی وجہ سے بعض اعتراض واشکال کو جومسلمانوں نے خلیفہ کے خلاف کئے تھے،تحریر نہیں کیا ہے (5)
لیکن وہی چیزیں جسے تاریخ نے لکھا ہے عثمان کا مسلمانوں کے بیت المال کے ساتھ کیا سلوک تھا بخوبی واضح وروشن کرتا ہے۔ مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیتیں اوردوسرے سامان جو اس نے اپنے اعزہ واحباب کو دیئے تھے،وہ بہت زیادہ عظیم تھے جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔
عثمان نے فدک کے علاقہ کو جو مدتوں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اورخلیفہ اول کے درمیان مورد بحث تھا مروان کو دیدیا اوریہ ملکیت ایک کے بعد ایک مروان کی اولادوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ عمربن عبدالعزیزنے اسے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اولادوں کو واپس کردیا۔
بہت زیادہ مورخین نے عثمان کی اس حرکت کو عیب شمار کیا ہے اور سب نے یہی لکھا ہے کہ تمام لوگوں نے جو اس پر اعتراض کیا ہے یہ ہے کہ اس نے فدک کو جو رسول اسلام کا صدقہ تھا مروان کودیدیا ۔(6)
اے کاش خلیفہ اسی بات پراکتفاء کرتا اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کو اس سے زیادہ عنایت اور بے شمارو بے حساب ہدیہ نہ دیتا لیکن افسوس کہ اموی خاندان کے ساتھ خلیفہ کی الفت و محبت ولگاؤ کی کوئی حدنہ تھی،اس نے اس مقدار پر بھی اکتفاء نہیں کیا بلکہ سن ستائیس ہجری میں اسلامی فوج نے افریقہ سے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کیا تھا جس کی قیمت تقریباً ڈھائی میلین(٢٥لاکھ ) دینارتھی اس کا پانچواں حصہ جسے قرآن کریم نے خمس کے چھ موارد میں تقسیم کیا ہے بغیر کسی دلیل کے اپنے داماد مروان کو دیدیا اوراس طرح سے اس نے تمام لوگوں کی فکروں کو اپنے خلاف حرکت کرنے پر مجبورکر دیا اس موقع پر بعض شعراء نے اس پر بعنوان اعتراض اشعار کہے ہیں۔
                 وَأعطَیتَ مَروانَ خَمسَ العَبا          ظُلماً لَهُم وَ جَمَیت الحِمی    (7)
" وہ خمس جو خدا کے بندوں سے مخصوص ہے بغیر کسی دلیل کے مروان کو دیدیا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیا۔"


سوالات:


1- حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنے کے لئے لوگوں کا آپ کی طرف آنے کی اہم ترین علت کیا تھی۔؟
2- خلیفہ سوم کے خلاف قیام کرنے کی اصل وجہ کیا تھی۔؟
3- عثمان کی حکومت کے خلاف لوگوں کے انقلاب لانے کے اصل عوامل کیا تھے۔"
4- عثمان نے حدود الہی کو پامال کیا چند نمونے بیان کریں۔؟


منابع:


1- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج1 ص 187
2- الاستیعاب ج2 ص690
3- شرح ابن ابی الحدید ج2 ص103
4- مسنداحمدج 1ص142،سنن بیہقی ج8 ص318،اسدالغابہ ج5 ص9، کامل ابن اثیرج3ص42، الغدیر ج8 ص172 ،الانساب بلاذری ج5 ص 33 سے ماخوذ.
5- تاریخ طبری ج5 ص108و13 و232
6- ابن قتیبہ دینوری ،معارف ص84
7- سنن بیہقی ج6 ص324

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: