مواد کا کوڈ۔: 62
ہٹس: 69
تاریخ اشاعت : 21 September 2023 - 10: 07
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (23)
عمربن عبد العزیز کے انتقال کے بعد آل مروان ایک کے بعد دوسرے حکومت کی باگ ڈورسنبھالتے رہے اور سب نے عمربن عبد العزیز کے برخلاف قدم اٹھایا اور فدک مروان کے بیٹوں کی خلافت کے زمانے تک ان لوگوں کے تصرف میں تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خاندان اس کی آمدنی سے بالکل محروم تھا۔

عمربن عبد العزیز نے فدک فاطمہ زہرا کو دیا


عمربن عبد العزیز کے انتقال کے بعد آل مروان ایک کے بعد دوسرے حکومت کی باگ ڈورسنبھالتے رہے اور سب نے عمربن عبد العزیز کے برخلاف قدم اٹھایا اورفدک مروان کے بیٹوں کی خلافت کے زمانے تک ان لوگوں کے تصرف میں تھا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان اس کی آمدنی سے بالکل محروم تھا، بنی امیہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب بنی عباس کی حکومت وجود میں آئی تو فدک کی خاص اہمیت تھی۔
 بنی عباس کے پہلے خلیفہ ''سفاح'' نے فدک عبد اللہ بن حسن کو واپس کردیا اس کے بعد جب منصورآیا تو اس نے واپس لے لیا. مہدی منصورکا بیٹا اس نے اپنے باپ کی پیروی نہیں کی اورفدک کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بچوں کو واپس کردیا.مہدی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے موسی اور ہارون جنہوں نے یکے بعد دیگرے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی فدک کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے چھین لیا اوراپنے تصرف میں لے لیا یہاں تک کہ ہارون کے بیٹے مامون نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ایک دن مامون رد مظالم اور لوگوں کی شکایت وغیرہ سننے کے لئے رسماً بیٹھ گیا اورجو خطوط مظلوموں نے لکھے تھے اس کی تحقیق و جستجو کرنے لگا۔ سب سے پہلا خط جو اس کے ہاتھ میں تھا وہ ایسے شخص کا تھا جس نے اپنے کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا وکیل و نمائندہ لکھا تھا اس نے خاندان پیغمبر کے لئے فدک واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
 خلیفہ خط پڑھ کررویا اوراس کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اس نے حکم دیا کہ خط لکھنے والے کو بلایا جائے، کچھ دیر کے بعد خلیفہ کے محل میں ایک بوڑھا شخص لایا گیا اورمامون سے فدک کے بارے میں بحث کرنے لگا، تھوڑی ہی دیر مناظرہ ہوا تھا کہ مامون قانع ہوگیا اورحکم دیا کہ رسمی طور پر مدینے کے حاکم کو خط لکھو کہ فدک کو فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے بچوں کو واپس کردیں،خط لکھا گیا اورخلیفہ نے اس پر مہر لگائی اورمدینہ منورہ بھیج دیا گیا۔ خاندان پیغمبرکو فدک مل جانے سے شیعہ بہت خوش ہوئے اوردعبل خزاعی نے اس موقع پر ایک قصیدہ بھی کہا جس کا پہلا شعر یہ تھا:
اصبح وجہ الزمان قد ضحکا    برد مامون ہاشم فدکا(1)
" زمانے کے چہرے پرخوشیوں کے آثار نظر آنے لگے کیونکہ مامون نے فدک کو بنی ہاشم کے بچوں (جو واقعی مالک تھے) کو واپس کردیا۔"
مامون نے جو خط فدک کے سلسلے میں مدینہ کے حاکم قیم بن جعفر کو لکھا تھا وہ بہت ہی حیرت انگیز تھا جس کا خلاصہ یہ ہے:
''امیرالمومنین جس کی خدا کے دین اور خلافت اسلامی میں بہت زیادہ اہمیت ہے اور خاندان نبوت سے رشتہ داری کی بنا پر بہترین و شائستہ شخص ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کی رعایت کرے اورجو کچھ بھی انہوں نے دوسروں کو دیا ہے اس کو ان کے حوالے کردے. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ زہرا کو دیا ہے اور یہ بات اتنی زیادہ واضح و روشن ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹوں میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں اختلاف نہیں کیا ہے اور کسی نے اس سے زیادہ کا بھی دعوی نہیں کیا ہے جو تصدیق کے لائق ہوتا۔ ''
اسی بناء پرامیرالمومنین مامون نے مصلحت سمجھا کہ خداوندعالم کی مرضی حاصل ہونے اورعدالت جاری کرنے اور حق کو حقدار تک پہنچانے کے لئے فدک کو ان کے وارثوں کے حوالے کردے اور اس کے لئے حکم جاری کرے اسی لئے اس نے اپنے مشیروں اورکاتبوں کوحکم دیا کہ اس مطلب کوحکومتی رجسٹرمیں تحریرکریں. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد جب بھی حج کی بجا آوری کے موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ جس شخص کا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس صدقہ یا ہدیہ یا اور کوئی چیز ہو وہ مجھے اطلاع کرے تو مسلمانوں نے اس کی بات کو قبول کرلیا تو پھر پیغمبراسلام کی بیٹی کا کیا مقابلہ، ان کی بات کی تو حتماً تصدیق و تائید ہونا چاہئیے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے مبارک طبری کو حکم دیا کہ فدک کو تمام حدود و حقوق کے ساتھ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو واپس کردو اور جو کچھ بھی فدک کے علاقے میں غلام، غلے اور دوسری چیزیں ہیں وہ سب محمد بن یحییٰ بن حسن بن زید بن علی بن الحسین اور محمد بن عبد اللہ بن حسن بن علی بن الحسین کو واپس کردو، تم جان لو یہ وہ فکر و نظر ہے جو امیرالمومنین نے خدا سے الہام کے ذریعے حاصل کیا تھا اور خدا نے ان کو کامیاب کیا ہے کہ خدا اور پیغمبر سے توسل و تقرب کریں۔
اس مطلب کو جو افراد بھی تمہاری طرف سے کام کررہے ہیں ان تک پہنچا دو اور فدک کی تعمیر و آبادی میں زیادتی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو۔(2)
مامون کے بعد فدک اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بچوں کے ہاتھ میں تھی یہاں تک کہ متوکل کو خلافت کے لئے منتخب کیا گیا وہ خاندان رسالت کا بہت سخت دشمن تھا لہذا فدک کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کے بچوں سے چھین لیا اورعبد اللہ بن عمر بازیار کی جاگیر قرار دیا۔
سرزمین فدک پر گیارہ کھجور کے درخت تھے جسے خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لگایا تھا، لوگ حج کے زمانے میں ان درختوں کی کھجوروں کو بطور تبرک اور مہنگی قیمت دے کر خریدتے تھے اور یہ خاندان نبوت کی شایان شان مدد کے طور پر تھی۔
خلیفہ عبداللہ اس مسئلہ سے بہت زیادہ ناراض تھا لہذا ایک شخص کو جس کا نام "شبیران" تھا اسے مدینہ روانہ کیا تاکہ کھجور کے ان درختوں کو کاٹ دے، اس نے بھی شقاوت قلبی کے ساتھ اس کے حکم پرعمل کیا لیکن جب بصرہ پہنچا تواس پر فالج گرپڑا۔ اس دورحکومت کے بعد فدک خاندان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے چھین لیا گیا اور پھرظالم حکومتوں نے وارثان فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو فدک واپس نہیں کیا۔


مسئلہ فدک اور افکار عمومی


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے اعتراض اور فدک کو غصب ہوئے چودہ صدیاں گذر گئیں مگرآج بھی فدک کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے اب مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ تاریخ اسلام کے دامن پر لگے اس بدنما داغ کو صاف کریں اوراس کے بارے میں مطالعہ کریں، بے شک قرآن کریم کے حکم کے مطابق فدک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خصوصی مال تھا اورخود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی اسے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیدیا تھا اورحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اورخلفاء کے زمانے میں فدک کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھین لیا گيا اب یہاں پرہر صاحبان عقل و خرد مسلمان کا فریضہ ہے کہ بلاکسی تعصب کے حقیقت کو لوگوں پرواضح و آشکارکرے اوراسلامی قوانین کے مطابق اس موضوع کو بیان کرے اور حق کو( اگر چہ چودہ صدیوں بعد ہی سہی) اس کے مالک تک واپس کردے اس سلسلے میں جو دلیل و شواہد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے جمع کیا ہے وہ آج بھی تمام اسلامی متون میں محفوظ ہیں اور خلفاء نے جو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا تھا وہ بھی آج کتابوں میں موجود ہیں۔
ممکن ہے اگر چہ تاریخ ایک زمانے میں کسی خاص لوگوں کے اختیار میں رہی ہو اور جس طرح چاہیں اسے تحریر کریں لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ طاقتورافراد یہ اختیاران کے ہاتھوں سے چھین لیا کرتے ہیں اورصحیح تاریخ لکھی جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی مورخین حق کو بیان ہی کردیتے ہیں۔
ہم چونکہ اپنی گفتگو کو بہت طول دنیا نہیں چاہتے لہذا اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور حق کے متلاشیوں کو حضرت آيت اللہ العظمی شیخ جعفرسبحانی دام ظلہ العالی کی معرکۃ الآراء کتاب " فروغ ولایت " کی پانچویں فصل کے مطالعے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بحث مسئلہ فدک اورافکارعمومی دوسو پندرہ سے دو سو اٹھاون تک کے صفحات کا مطالعہ کریں تاکہ حقائق سے باخبر ہوجائیں اگر چہ ہر زمانے میں تاریخ لکھنے والے اس میں تبدیلی اور تحریف کرتے رہتے ہیں اور حق کو چھپاتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود حق کھل کر سامنے آ ہی جاتا ہے لہذا خوب تحربہ کریں اور انشاء اللہ اس نتیجے پرپہنچ جائیں گے کہ جو جملہ بزرگوں نے عالم خلقت کی حقانیت کے بارے میں کہا ہے کہ " القصر لا یدوم" زور و زبردستی ہمیشہ نہیں رہتا اور ممکن ہے حق کچھ دنوں تک تسلط پسندوں کی وجہ سے پوشیدہ ہوجائے لیکن بہرحال حق، حق ہی ہے اور باطل باطل، اور زمانے کے گذرنے کے ساتھ حق اپنی حقانیت کو ظاہر کرہی دیتا ہے ۔


سوال:


1- فدک کے بارے میں مامون کا نظریہ کیا تھا۔؟


b


1- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج16 ص 216
2- فتوح البلدان ص 39 تا 41، تاریخ یعقوبی ج3 ص 48

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: