مواد کا کوڈ۔: 65
ہٹس: 136
تاریخ اشاعت : 25 September 2023 - 22: 08
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (26)
خلیفہ نے یہ فراست و دانائی یا غیب کی باتوں کو کہاں سے حاصل کیا تھا؟ کیا اس کے علاوہ کچھ ہے کہ اس نے خلافت کے لئے شوریٰ کے ممبران کو اس طرح ترتیب دیا تھا کہ عثمان خلافت کے لئے منتخب ہوجائےاورعلی علیہ السلام کو حتماً خلافت سے محروم کردیا جائے۔

عمر کے شوریٰ کی تشریح و توضیح


7۔ خلیفہ کو یہ علم کیسے ہوا کہ عثمان کو خلافت کے لئے چنا جائے گا اوراپنی قوم کو لوگوں پرمسلط کرے گا اورایک دن وہ آئے گا جب لوگ اس کے خلاف قیام کریں گے؟ اور پھراس سے یہ بھی کہا کہ اس موقع پر مجھے یاد کرنا۔
خلیفہ نے یہ فراست و دانائی یا غیب کی باتوں کو کہاں سے حاصل کیا تھا؟ کیا اس کے علاوہ کچھ ہے کہ اس نے خلافت کے لئے شوریٰ کے ممبران کو اس طرح ترتیب دیا تھا کہ عثمان خلافت کے لئے منتخب ہوجائےاورعلی علیہ السلام کو حتماً خلافت سے محروم کردیا جائے۔
8۔ عمر بے شمار کوششوں کے باوجود امام علی علیہ السلام کی زندگی میں کوئی عیب تلاش نہ کرسکا اورایسی گفتگو کی کہ بعد میں عمروعاص نے اسے بہانہ بنایا اورکہا کہ علی شوخ مزاج تھے۔(1)
عمربن خطاب نے حضرت کے کشادہ سینے اور معاف کرنے اورامورمادی کو حضرت کی طرف سے ناچیز شمار کرنے کو شوخ مزاجی سے تعبیر کیا ہے وہ چیز جو ایک رہبر کے پاس ہونا ضروری ہے وہ یہ کہ حق کے اجراء کرنے اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں مصمم ارادہ رکھتا ہو اور حضرت علی علیہ السلام اس خصوصیت کی اعلیٰ مثال تھے اورخود خلیفہ دوم نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تم نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو لوگوں کی واضح و آشکار حق کے ساتھ رہبری کرو گے۔
9۔ عمر نے عبد الرحمن بن عوف کو کیوں معیار قراردیا اورکہا کہ اگر دونوں کی رائے مساوی ہو تو اس گروہ کو مقدم کرنا جس میں عبد الرحمن بن عوف ہو؟
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ خلیفہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی اورچارہ نہیں تھا کیونکہ مساوی رائے ہونے کی صورت میں ضروری تھا کہ اس مشکل کو حل کیا جائے اور خلیفہ نے عبد الرحمن کو یہ فیصلہ کا حق دے کر اس مشکل کو برطرف کردیا۔
اس کا جواب بالکل واضح ہے کیونکہ عبدالرحمن بن عوف کو فیصلہ کرنے کا حق دینا عثمان کی کامیابی کو مستحکم کرنے کے علاوہ کچھ اورنہ تھا عبد الرحمن عثمان کا بہنوئی تھا لہذا فیصلہ کرتے وقت اپنی رشتہ داری کو کبھی فراموش نہیں کرے گا یہاں تک کہ اگر فرض بھی کرلیں کہ وہ اچھا انسان تھا تو اس کے بعد رشتہ داری کا اثر نہ چاہتے ہوئے بھی پڑجاتا ہے۔
عمر نے اس مشکل کو برطرف کرنے کے لئے دوسرے گروہ کی رائے کو آخری رائے سمجھانا چاہا اورچاہتا تھا کہ یہ کہے کہ اگردونوں گروہ ایک ہی رائے پر متفق ہوں تو آخری رائے ان لوگوں کی ہوگی جس رائے سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ اصحاب راضی ہوں گے نہ عبدالرحمن کی رائے جو کہ عثمان کا بھائی اور سعد وقاص کا عزیز تھا۔
10۔ عمر نے جب کہ وہ خود درد کی وجہ سے بے حال تھا وہاں پر موجود افراد سے کہا کہ میرے بعد تم لوگ آپس میں اختلاف نہ کرنا اور تفرقہ بازی سے پرہیز کرنا کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو معاویہ خلافت کو لے لے گا اور تم سے حکومت کو چھین لے گا، عثمان اور معاویہ بنی امیہ کے نجس درخت کے دو پھل ہیں اورعثمان کی خلافت معاویہ کی حکومت کو عثمان کی حکومت کے بعد مستحکم و مضبوط کرتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ خلیفہ کبھی حاکموں کے اموال کو جمع کرتا اوران کو ان کے منصب سے معزول کرتا تھا مگرکبھی بھی معاویہ کی حکومت میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا اوراسے مال جمع کرنے اور شام میں اپنی حکومت کومضبوط کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا تھا جب کہ یہ جانتا تھا کہ وہ ایک سادہ لوح حاکم کی طرح (حاکموں کی روش کے مطابق) اپنے وظیفے کوانجام نہیں دیتا تھا اور اس کا دربار قیصر و کسریٰ کے نمائندوں سے کم نہ تھا۔
کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کام کچھ اورتھا اور مقصد کچھ اورتھا اوراس کام کا مقصد بنی امیہ کے لئے زمینہ فراہم کرنا تھا جواسلام آنے سے پہلے سے ہی بنی ہاشم کے خونی دشمن تھے؟ جی ہاں،ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر بنی ہاشم مرکز اسلام ''مدینہ'' میں ایک طاقت بن کرابھرے اور لوگ ان کے ماننے والے ہوگئے تو ایک طاقتوراور خارجی حکومت ہمیشہ ان کے لئے مزاحمت کا سبب ہوگی چنانچہ ایسا ہوا بھی۔
11۔ عمر نے اپنی عجز وانکساری ظاہر کرتے ہوئے کہا: میرے بیٹے عبداللہ کورائے نہ دینا کیونکہ اس کے اندر اتنی بھی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے سکے،ان تمام چیزوں کے باوجود اسے شوری کا مشاور قراردیا اورکہا جب شوریٰ کے ممبران تین مساوی رائے رکھتے ہوں تو طرفین میرے بیٹے عبد اللہ کی بات کو قبول کریں لیکن ہر گزیہ اجازت نہ دی کہ حسن بن علی اورعبد اللہ بن عباس شوریٰ کے ممبر یا اس کے مشاور ہوں بلکہ اس نے کہا کہ اگر یہ لوگ جلسہ میں آزاد سامعین کی طرح آنا چاہیں تو شرکت کرسکتے ہیں۔(2)
12۔ عمر نے ایک طرف تو عبد الرحمن بن عوف کو مومن یکتا کے خطاب سے نوازا کہ اس کا ایمان زمین پر موجود لوگوں کے آدھے ایمان سے زیادہ سنگین ہے اور دوسری طرف اس مشہورو معروف مالدارکو ''فرعون امت'' کے لقب سے نوازتا ہے(3) اور حقیقتاً تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ عبدالرحمن بن عوف قریش کا مشہور و معروف مالدار تھا اوراس کے مرنے کے بعد اس کی بے پناہ دولت کو بطور میراث رکھا۔
اس کی دولت کا ایک حصہ یہ تھا کہ اس کے پاس ایک ہزار گائے، تین ہزار بکری اور سو گھوڑے تھے اور مدینے کے ''جرف'' علاقے کو بیس گائے کے ذریعہ پانی سے سیراب کرتا تھا۔
اس کی چاربیویاں تھیں اور جب اس کا انتقال ہوا تو ہر بیوی کو 80 ہزار دینار میراث کے طور پرملا اور یہ اس کی دولت میں سے آٹھویں حصہ کا ایک چوتھائی حصہ تھا جو اس کی بیویوں تک پہنچا اورجب اس نے اپنی ایک بیوی کو بیماری کی حالت میں طلاق دیا تو 83 ہزار دینار اسے بطور میراث دے کر اس سے مصالحت کی۔(4)
13۔ عبد الرحمن نے عثمان کو منتخب کرتے وقت مکرو فریب سے کام لیا اور سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام سے خواہش ظاہرکی کہ کتاب خدا و سنت پیغمبر اور شیخین کی روش کے مطابق زندگی بسر کریں، جب کہ وہ جانتا تھا کہ شیخین کا طورو طریقہ، قرآن و سنت کی مطابقت کی صورت میں ایک جداگانہ امر نہیں ہے اور قرآن و سنت کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ان تمام چیزوں کے باوجود اس کا اصرارتھا کہ علی علیہ السلام کی بیعت ان تینوں شرطوں پر ثابت ہو اوروہ یہ بھی جانتا تھا کہ امام علی علیہ السلام تیسری شرط کو قبول نہیں کریں گے لہذا جب حضرت نے اس تیسری شرط کو رد کردیا توعبد الرحمن نے فوراً اس چیز کی خبر اپنے برادر نسبتی عثمان کو دیدی اور اس نے فوراً اسے قبول کرلیا۔
14۔ امام علیہ السلام کے لئے حکومت وسیلہ تھی نہ مقصد، جب کہ آپ کے مخالف کے لئے مقصد تھی نہ وسیلہ۔ اگرامام علیہ السلام خلافت کو اسی نگاہ سے دیکھتے جس نگاہ سے عثمان دیکھ رہا تھا تو بہت زیادہ آسان تھا کہ ظاہراً عوف کے بیٹے کی شرط کو قبول کرلیتے لیکن عمل کے وقت اسے قبول نہ کرتے لیکن حضرت نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ کبھی بھی حق کو باطل کے راستے سے حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
15۔ امام علیہ السلام ابتداء سے ہی خلیفہ دوم کے فریب اوراس کے نمائندوں کی نیت سے باخبر تھے یہی وجہ ہے کہ جب آپ شوریٰ کی ترکیب و کیفیت سے آگاہ ہوئے تو اپنے چچا عباس سے کہا کہ اس مرتبہ پھر ہم خلافت سے محروم ہوگئے صرف امام ہی اس نتیجہ سے آگاہ نہ تھے بلکہ عبداللہ بن عباس جیسا نوجوان بھی جب شوری کے نمائندوں کی فہرست سے باخبرہوا تواس نے کہا کہ عمرچاہتا ہے کہ عثمان خلیفہ بنے۔(5)
16 ۔ عمر نے محمد بن مسلمہ کو حکم دیا کہ اگر اقلیت نے اکثریت کی موافقت نہ کی تو فوراً ان کو پھانسی دیدینا اوراگر دونوں گروہ مساوی ہوں اور دوسرے گروہ نے اس گروہ کہ جس میں عبدالرحمن ہے موافقت نہیں کی تو فوراً انہیں قتل کردینا اوراگر شوریٰ کے ممبران تین دن تک جانشین کا تعین نہ کرسکے تو سب کو قتل کردینا۔
ان دھمکیوں کے مقابلے میں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اس آزادی پر مبارکباد، دنیا کی کس حکومت کا قانون ہے کہ اگر اقلیت اکثریت کے مقابلے میں ہو تو اسے قتل کردیا جائے؟
بہرحال عثمان کے خلافت پر منتخب ہونے کی وجہ سے بنی امیہ کو بہت زیادہ ترقی نصیب ہوئی اوراتنی قدرت و جرأت ملی کہ ابوسفیان جو عثمان کے رشتہ داروں میں سے تھا ایک دن وہ احد گیا اوراسلام کے بزرگ سردار جناب حمزہ کی قبر پرگیا جو ابو سفیان اوراس کے ساتھیوں سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے قبر پر پیر سے ٹھوکر مار کر کہتا ہے: اے ابا یعلی! اٹھو اوردیکھو جس چیز کے لئے ہم نے لڑائی لڑی تھی وہ آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
عثمان کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں ایک دن اس کے تمام رشتہ دار اس کے گھر میں موجود تھے اس وقت اسی بوڑھے ملحد نے سب سے مخاطب ہوکر کہا:
''خلافت کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں منتقل کرتے رہو اور اپنے کام کرنے والوں کو بنی امیہ میں سے منتخب کرو کیونکہ حاکمیت کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف نہیں ہے نہ جنتی ہے اور نہ دوزخی ۔(6)


سوالات:


1- اہل سنت کے نظریہ کے مطابق امام کو کس طریقے سے منتخب کرنا چاہیے۔؟
2۔ عمر عبدالرحمن کے لے اتنی اہمیت کا کیوں قائل تھے۔؟


منابع:


1- امام علیہ السلام نے اس تہمت کو عمروعاص سے نقل کیا ہے اوراس طرح سے جواب دیا ہے. عَجَباً لِإبن النابِغَة یَزعَمُ لِأهل الشام أنّ فی دُعابَه وَ أنّی امرُءٌ تِلعابَه ... لَقَد قالَ باطِلاً وَ نَطَقَ آثماً۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 82 " مجھے تعجب ہے عمروعاص پر کہ جس نے مجھے شامیوں کے درمیان شوخ مزاج متعارف کروایا یہ باطل بات ہے اور وہ اپنی گفتگو میں گناہوں کا مرتکب ہوا ہے۔
2- تاریخ یعقوبی ج2 ص 112، الامامة والسیاسة ج1 ص 24
3- الامامة والسیاسة ج1ص 24
4- الغدیر ج8 ص 291، مطبوعہ نجف، و ص 284 مطبوعہ لبنان
5- کامل ابن اثیر ج2 ص 45، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج13 ص 93
6-  الاستیعاب ج2 ص 290

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: