مواد کا کوڈ۔: 64
ہٹس: 69
تاریخ اشاعت : 23 September 2023 - 10: 18
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (25)
جلسہ شوری کا نتیجہ ایسا نہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام ابتدا سے انتہا تک اس سے واقف نہ تھے یہاں تک کہ ابن عباس نے بھی شوری کے جلسہ کی کاروائی سننے کے بعد حضرت کی خلافت سے محرومی کو تیسری مرتبہ اعلان کیا تھا لہذا جب عوف کے بیٹے نے عثمان کے ساتھ بیعت کرکے اپنا کردار نبھایا۔

شوری کے جلسہ کا نتیجہ


جلسہ شوری کا نتیجہ ایسا نہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام ابتدا سے انتہا تک اس سے واقف نہ تھے یہاں تک کہ ابن عباس نے بھی شوری کے جلسہ کی کاروائی سننے کے بعد حضرت کی خلافت سے محرومی کو تیسری مرتبہ اعلان کیا تھا لہذا جب عوف کے بیٹے نے عثمان کے ساتھ بیعت کرکے اپنا کردار نبھایا اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے عبد الرحمن کو مخاطب کرکے کہا کہ تم نے اس امید کے ساتھ کہ عثمان آخروقت میں خلافت تمہارے حوالے کردے گا اس کو منتخب کیا جس طرح سے عمر نے بھی ابوبکر کو چنا تھا مگر مجھے امید ہے کہ خداوندعالم تم دونوں کی درمیان سخت اختلاف پیدا کردے گا۔
مورخین نے لکھا ہے کہ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ عوف کے بیٹے اورعثمان کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی اورایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوگیا یہاں تک کہ عبدالرحمن کا انتقال ہوگیا۔(1)
یہ خلیفہ دوم کے شوریٰ (چھ آدمیوں کی کمیٹی) کے واقعہ کا خلاصہ تھا اس سے پہلے کہ ہم تاریخ اسلام کے اس واقعہ کی قضاوت کریں. حضرت علی علیہ السلام کے نظریات کو اس سلسلے میں بیان کرر ہے ہیں امام علی علیہ السلام خطبہ شقشقیہ (نہج البلاغہ کے تیسرے خطبے ) میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
" حَتی إذا مَضی لِسَبیلِهِ جَعَلَها فی جَماعَۀٍ زَعَمَ أنَی أحَدُهُم فَیا للهِ وَ لِلشُّوری، مَتی إعتَرَضَ الرَّیبُ فیَّ مَعَ الأوَّلِ مِنهُم حَتّی صِرتُ اُقرَنُ إلی هذِهِ النَّظایرلکِنّی أسفَفتُ إذا أسَفُّوا وَ طِرتُ إذ طارُوا فَصَفی رَجُلٌ مِنهُم لِضِغِنِه وَ مالَ الآخَرُ لِصِهرِه مَعَ هَنٍ وَ هَنٍ۔"
" جب عمرکا انتقال ہوا توخلافت کو شوری کے حوالے کردیا اور یہ خیال کیا کہ میں بھی اسی شوری کا ایک فرد ہوں خدایا اس شوری کے متعلق تجھ سے مدد چاہتا ہوں۔ کب میری حقانیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اس وقت جب میں ابوبکر کے ساتھ تھا یہاں تک کہ آج میں ان لوگوں کی صف میں لاکر کھڑا کردیا گیا ہوں؟ لیکن مصلحت کی وجہ سے میں نے ان کی موافقت کردی اورشوریٰ میں شریک ہوا لیکن اسی شوری کے ایک ممبر نے مجھ سے کینہ رکھنے کی وجہ سے میری کھلم کھلا مخالفت کی اورخلیفہ سے رشتہ داری کی وجہ سے اس کے پاس چلا گیا اور دو افراد وہ جن کا نام لینا بھی برا ہے (طلحہ اور زبیر)۔"
نہج البلاغہ میں عمر کی شوری کے متعلق اس سے زیادہ اورمطالب نہیں ہیں مگر قارئین کی معلومات کے لئے ان کے جرائم اورجنایت، ظلم و بربریت، ان کی بدترین سازشوں اور خلیفہ کی خود غرضیوں سے لوگ باخبر ہوجائیں لہٰذا چند نکتے اس کے بعد والے مقالے میں بیان کررہے ہیں۔


عمر کے شوریٰ کی تشریح و توضیح


قارئین کرام ہم اس تشریح میں حساس اوراہم مسئلوں کا ذکر کریں گے اور جزئی اورغیر مہم نکات سے پرہیز کریں گے۔
1۔ مختلف گروہوں نے خلیفۂ دوم سے جو یہ گذارش کی کہ اپنا جانشین منتخب کرو، یہ اس بات پرگواہ ہے کہ تمام لوگوں نے فطری طور پر یہ درک کیا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زندگی میں جامعہ اسلامی کے لئے اپنا جانشین معین کرے کیونکہ اگرایسا نہ ہوا تو ممکن ہے پورے معاشرے میں فتنہ و فساد برپا ہوجائے اور اس راہ میں بہت زیادہ خون بہایا جائے،اس چیز کو مد نظررکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل سنت کے دانشور کس طرح سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیغمبراسلام نے اپنی زندگی میں اپنا جانشین معین نہیں کیا؟
2۔ خلیفہ کا جانشین معین کرنے کے لئے حکم دینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد شوریٰ کی حکومت تشکیل دینا بے بنیاد تھا اورہرگزاس طرح کی کسی کمیٹی کا وجود نہ تھا ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے شوریٰ بنانے کا صریحی حکم خلیفہ دوم کے جانشین منتخب کرنے کے لئے ہو؟
حکومت شوریٰ(امام کا تعین خداوندعالم کی طرف سے بہترین شیوۂ حکومت ہے کہ انسان منتخب کرسکتا ہے) ایک ایسا امر ہے جو آج تمام لوگوں کی زبانوں پر ہے اوراس کے ماننے والے بہت بڑھا چڑھا کراس کی تعریف کرتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ ثابت کریں کہ اسلام میں حکومت کی اساس یہی ہے (یعنی یہی اصلی حکومت ہے) اور پیغمبر کی یہی حکومت شوری ہے اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں کوئی بھی اس طرح کی حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے۔
3۔ عمر نے لوگوں کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہا: ''اگر ابوعبیدہ زندہ ہوتا تو اس کو میں اپنا جانشین منتخب کرتا کیونکہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ اس امت کا امین ہے اوراگرسالم، ابوحذیفہ کا مولا زندہ ہوتا تو میں اسے اپنا جانشین بناتا کیونکہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: وہ خدا کا دوست ہے''۔
عجیب بات ہے کہ وہ ایسے وقت میں بجائے اس کے کہ زندوں کی فکر کرتا مردوں کی فکرمیں غرق تھا کہ مردہ پرستی کے علاوہ ان کی زندگی سے بے توجہی ہے جو اس کے زمانے میں رہ رہے تھے۔ بہرحال اگرابوعبیدہ اورسالم کے انتخاب کا ملاک و معیار یہ تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو امت کا امین اور خدا کا دوست کہا تھا تو پھرعمر نے ابوطالب کے بیٹے کو کیوں یاد نہیں کیا؟ جس کے بارے میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' عَلِیٌّ مَعَ الحَقّ وَ الحَقُّ مَعَ عَلیّ "(2)یعنی علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات اور ان کے طیب و طاہر مزاج، ان کے بے نظیر فیصلوں اوران کی بہادری، کتاب و سنت پران کا علم وغیرہ سے وہ دوسروں سے زیادہ باخبر تھا پھر کیوں اس نے حضرت علی علیہ السلام کا نام نہیں لیا اور مردوں کو یاد کرنے لگا جن کا مشغلہ دوسروں کے ساتھ کینہ بعض و حسد کے علاوہ کچھ اور نہ تھا؟
4۔ اگر امامت کا مقام اور منصب ایک الہی مقام اوررسالت کو ادامہ دینے کا وظیفہ ہے توامام کوپہچاننے کے لئے نص الہی کا پابند ہونا چاہئے اوراگرمقام امامت، مقام اجتماعی ہے تو اس کی پہچان کے لئے ضروری ہے کہ عمومی افکارکی طرف رجوع کریں لیکن امام کا انتخاب اس شوریٰ کے ذریعے جس کے ممبران خود اپنی طرف سے خلیفہ معین ہوں، نہ نص کی پیروی ہے اورنہ ہی افکارعمومی کی پیروی ہے اگر ضروری ہے کہ آنے والے خلیفہ کا انتخاب خود موجودہ خلیفہ کرے تو پھر اس کام کو چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ کے حوالے کیوں کیا۔
اہل سنت کے نظریہ کے مطابق ضروری ہے کہ امام اجتماع امت یا اہل حل وعقد کے ذریعے منتخب ہو اور آنے والے خلیفہ کی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن نہیں معلوم کیوں وہ لوگ اس کام کو صحیح جانتے ہیں اور چھ نفری شوری کی تائید کو لازم الاجراء سمجھتے ہیں۔
اگر امام کو منتخب کرنا خود امت کا حق اور لوگوں کے اختیار میں ہے تو خلیفہ وقت نے کس دلیل سے اس چیز کو لوگوں سے سلب کرلیا اور شوریٰ کے حوالے کردیا جس کے ممبران کو خود اس نے معین کیا تھا؟
5۔ کسی بھی طریقے سے بہ بات واضح نہیں ہے کہ شوریٰ کے ممبران کی تعداد صرف چھ آدمیوں پرکیوں منحصر تھی اگران لوگوں کو منتخب کرنے کی علت یہ تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال کے وقت ان لوگوں سے راضی تھے تو یہی ملاک و معیارعمار، حذیفہ یمانی، ابوذر، مقداد، ابیّ بن کعب وغیرہ پر بھی ثابت ہوتا ہے۔
مثلاً پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمار کے بارے میں فرمایا:
عَمّارُ مَعَ الحَقّ وَ الحَقُّ مَعَهُ یَدُورُ مَعَهُ أینَما دار '' (3)
"عمارحق کا محور ہیں اورحق ان کے ساتھ ہے جہاں بھی وہ جاتے ہیں حق ان کے ساتھ جاتا ہے اور حضرت ابوذر غفاری کے بارے میں فرماتے ہیں:'' ما أظّلتِ الخَضراءُ وَلا أقَلَّتِ الغَبُراءُ عَلی ذی لَهجَۀٍ أصدَقُ مِن أبی ذَر" (4)" زمین نے کسی ایسے کا بار نہیں اٹھایا اور آ‎سمان نے کسی ایسے پر سایہ نہیں کیا جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔"
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے باصفات حضرات کے وجود کے بعد کیوں عمر نے ان کو شوریٰ کے ممبران میں شامل نہیں کیا اورایسے افراد کو منتخب کیا جن میں سے اکثر حضرت علی علیہ السلام کے مخالف تھے ان میں سے صرف ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کا چاہنے والا تھا اور وہ زبیر تھے اور باقی چار لوگ امام کے سخت مخالف تھے اگرچہ زبیر بھی آخر میں مولائے کائنات کے لئے ضرر ثابت ہوئے کیونکہ زبیر ان دنوں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا مثل و مقابل نہیں کہتے تھے اوران کے ساتھ تھے لیکن آخر میں قتل عثمان کے بعد خلافت کا دعوی کرنے لگے۔
6۔ خلیفہ کا یہ دعوی تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو شوریٰ کے لئے اس لئے منتخب کیا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال کے وقت ان سے راضی تھے جب کہ خود اس نے شوریٰ کے ممبران کے بارے میں طلحہ کو دوسرے انداز سے پہچنوایا تھا اور اس سے کہا تھا کہ تم نے آیت حجاب نازل ہوتے وقت ایسی بات کہی تھی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھ پرغضبناک ہوئے تھے اور وفات کے دن تک تم سے ناراض تھے۔ اب خود فیصلہ کریں کہ ان دونوں نظریہ و گفتگو سے کس چیز کو قبول کیا جائے؟
خلیفہ نے شوریٰ کے ممبران کے انتقاد میں ایسی باتیں کہیں کہ جن میں سے اکثر خلافت کیا شوری کا ممبر ہونے کی صلاحیت کے بھی منافی تھی مثلاً زبیر کے بارے میں کہا کہ تم ایک دن انسان اور ایک دن شیطان ہو، کیا ممکن ہے کہ ایسا شخص شورائے خلافت میں شریک ہو اور مسلمانوں کا خلیفہ قرار پائے؟ اور اگر ایسا ہوتا کہ وہ شوریٰ کے جلسے کے وقت شیطانی نیت رکھ کر جلسہ میں شریک ہوتا تو اس کی شیطانی فکر کا نتیجہ کیا ہوتا؟
پھر اس نے عثمان کے بارے میں کہا: اگر تم خلیفہ بنے تو بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط کردو گے و .... ایسا شخص جو اس قسم کی طینت رکھتا ہو اور رشتہ داری کے تعصب کی بناء پر حق سے منحرف ہوجائے تو کیا یہ شخص شورائے خلافت کے ممبر بننے کی لیاقت و صلاحیت رکھتا ہے؟ یا امت کے لئے خلیفہ کا تعیین کرے؟


سوالات:


-1 جانشین منتخب کرنے کے لئے خیفہ دوم کو مختلف گروہوں کی جانب سے درخواست کرنا کس بات کی علامت تھی۔؟
2- عوام کی طرف سے جانشین کے انتخاب کے بارے  میں ہونے والی درخواست کا عمر نے کیا جواب دیا۔؟


منابع:


1-- شوری کے متعلق تمام معلومات شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج1 ص 185 تا 188 سے نقل اور تلخیص ہوئی ہے۔
2- یہ حدیث محدثین اہل سنت سے بطورمتواتر نقل ہوئی ہے۔ الغدیر ج3 ص 156 مطبوعہ نجف اور ص 176 مطبوعہ بیروت کی طرف مراجعہ کریں۔
3-  الغدیر ج 9 ص 25
4- محدثین فریقین نے اس حدیث کو متفقہ طورپر نقل کیا ہے اور ہم نے اپنی کتاب ''شخصیتہائے اسلامی شیعہ'' ص 220 میں اس کے حوالے کو نقل کیا ہے۔
ایک خاص نکتہ جس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ نے اعضائے شوری کے درمیان ایسے افراد کو منتخب کیا جو عظمت و فضیلت کے مطابق ایک جیسے نہیں تھے اور اسی وجہ سے ان میں سے بعض افراد نے یہ خیال کیا کہ حقیقت میں وہ خلافت و رہبری کی صلاحیت رکھتے ہیں جن میں سے طلحہ و زبیر سر فہرست تھے شاید ہرگز وہ اپنے کو اس لائق نہیں سمجھتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام کے سامنے خلافت کے لئے دم بھرتے لیکن عمر نے ایسے افراد کو شوری کی فہرست میں قرار دے کر ان کے اندر جرآت و جسارت پیدا کردیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے دورحکومت و خلافت میں حضرت کے مقابلے میں قیام کے لے اٹھ کھڑے ہوں جس کے نتیجے میں جنگ جمل رونما ہوئی اور بے شمار مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا ۔

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: