مواد کا کوڈ۔: 63
ہٹس: 75
تاریخ اشاعت : 22 September 2023 - 10: 16
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (24)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد خلفاء ثلاثہ کا انتخاب ایک طریقے سے نہیں ہوا بلکہ خلفاء ثلاثہ میں سے ہرایک خلیفہ الگ الگ طریقے سے منتخب ہوا مثلا ابوبکرسقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے ذریعے چنے گئے جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اورمہاجرین سے زبردستی اوراختیاری دونوں صورتوں سے بیعت لی گئی اورعمر کو ابوبکر نے رہبری کے لئے منتخب کیا اور عثمان اس شوریٰ کے ذریعے منتخب ہوئے جس میں کل چھ آدمی تھے اور اس کمیٹی کو دوسرے خلیفہ نے بنایا تھا۔

حضرت علی علیہ السلام اور شوریٰ


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد خلفاء ثلاثہ کا انتخاب ایک طریقے سے نہیں ہوا بلکہ خلفاء ثلاثہ میں سے ہرایک خلیفہ الگ الگ طریقے سے منتخب ہوا مثلا ابوبکرسقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے ذریعے چنے گئے جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اورمہاجرین سے زبردستی اوراختیاری دونوں صورتوں سے بیعت لی گئی اورعمر کو ابوبکر نے رہبری کے لئے منتخب کیا اور عثمان اس شوریٰ کے ذریعے منتخب ہوئے جس میں کل چھ آدمی تھے اور اس کمیٹی کو دوسرے خلیفہ نے بنایا تھا۔
خلیفہ منتخب کرنے کے یہ مختلف طریقے اس بات پرگواہ ہیں کہ خلافت انتخابی امر نہیں تھا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے کوئی ایسا حکم جاری نہیں ہوا تھا کہ لوگ امام کا انتخاب کرلیں ورنہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد خلفاء کا مختلف طریقوں سے منتخب ہونا جو آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت بھی نہیں رکھتے تھے وہ چن لئے جائیں اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم نظراندازکردیاجائے اور تمام لوگ اپنی زبانوں پر تالے لگالیں اور اس طرح کے انتخابات پر کوئی اعتراض نہ کریں۔
یہ فرق اس بات پر گواہ ہیں کہ اسلام میں رہبری اور امامت کا مرتبہ خداوندعالم کی جانب سے ایک انتصابی منصب ہے لیکن افسوس اس قوم کے بزرگوں نےاس مسئلے میں بھی، دوسرے مسائل کی طرح پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثوں کو نظر اندازکر دیا ہے اور لوگوں کو یہ راہ دکھادی کہ امت کا رہبرخود امت ہی منتخب کرے گی اور چونکہ لوگوں کے ذریعے رہبرکا انتخاب ایک نئی چیز تھی اوراس روش کے ایجاد کرنے والوں کو کوئی تجربہ نہ تھا لہٰذا رہبر کا مختلف طریقوں سے انتخاب کیا گیا۔


ابوبکر نے حقِ نمک ادا کردیا


ابوبکرکو مسند خلافت پر بیٹھانے کے لئے عمربن خطاب نے بہت زیادہ کوششیں کی اوراس کام سے اس کا مقصد یہ تھا کہ ابوبکر کے مرنے کے بعد خلافت اس کے حق میں آئے گی کیونکہ وہ ابوبکر سے کچھ چھوٹا تھا امام علیہ السلام نے ابتدائے کار میں عمر کو مخاطب کرتے ہوئے قرمایا تھا: ''خوب اچھی طرح اس کی مدد کرو کہ تمہیں ہی اس کا فائدہ ملے گا آج اس کے لئے بہترین راہ ہموارکرو تا کہ کل تجھے واپس مل جائے''۔(1)
ابوبکر نے بھی نمک حرامی نہیں کی، بیماری کے عالم میں جب کہ وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا عثمان کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ یہ لکھو:
" یہ عبد اللہ بن عثمان(2) کاعہد نامہ مسلمانوں کے لئے ہے جو دنیا کی زندگی کے آخری لمحات اورآخرت کے پہلے گام پر ہے اس وقت میں جب کہ مومن بہترین کام اور نیک چیزوں کی فکر میں ہے اور کافر حالت تسلیم میں ہے۔ابھی خلیفہ کا کلام یہیں تک پہنچا تھا کہ بیہوش ہوگیا،عثمان نے یہ سوچ کرکہ وصیت نامہ مکمل ہونے سے پہلے خلیفہ مرگئے ہیں لہٰذا عہد نامہ کو خود اپنی طرف سے لکھ ڈالا، پھر آگے لکھتا ہے کہ میں نے اپنے بعد خطاب کے بیٹے کو جانشین قرار دیا ہے۔
کچھ ہی دیرگذری تھی کہ خلیفہ کو ہوش آگیا اورعثمان نے جو کچھ اس کی طرف سے لکھا تھا اس کو پڑھ کر سنایا ابوبکر نے عثمان سے پوچھا: تم نے میری وصیت کو کس طرح لکھا؟ اس نے جواب دیا: میں جانتا تھا کہ آپ اس کے علاوہ کچھ اورنہیں لکھیں گے۔ اگر یہ واقعہ صرف نمائش ہی کے لئے ہو جب بھی ہم یہی کہیں گے کہ عثمان بھی عمر کے منتخب ہونے میں شامل تھا اور اس نے ایک خاص طریقے سے اپنے ارادے کو ظاہر کردیا۔
مدتوں بعد وہ وقت آپہنچا کہ عمر نے حق کو پہچانا اورعثمان کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ منتخب کردیا اور حق نمک کو ادا کیا۔


شوریٰ کے عہدہ داروں کاانتخاب


خلیفہ دوم کا آخری وقت تھا اوروہ خود بھی اس بات کو محسوس کررہا تھا کہ وہ زندگی کے آخری لمحات بسرکررہا ہے ہرطرف سے پیغامات آرہے تھے کہ اپنا جانشین منتخب کرو،عائشہ نے حذیفہ کے بیٹے عبداللہ کے ذریعے پیغام بھیجا کہ محمد کی امت کو بغیر چرواہے کے نہ چھوڑو اورجلد سے جلد اپنا جانشین منتخب کروکیونکہ میں فتنہ و فساد سے بہت ڈرتی ہوں۔(3)
عمرکے بیٹے نے بھی اپنے باپ سے یہی باتیں کیں اورکہا: اگر تم اپنے گلہ کے چرواہے کو بلاؤ تو کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ وہ واپس جانے تک کسی کو اپنا جانشین قراردے تا کہ بکریوں کے جھنڈ کو بھیڑیوں سے محفوظ رکھے؟ اور جو لوگ خلیفہ کی عیادت کرنے آئے تھے ان لوگوں نے بھی اسی چیز کو خلیفہ سے کہا، بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہا کہ اپنے بیٹے عبداللہ کو اپنا جانشین بنا دو، خلیفہ اپنے بیٹےعبداللہ کی بے لیاقتی سے باخبر تھا لہٰذاعذر خواہی کرتے ہوئے کہا کہ خاندان خطاب کے لئے بس یہی کافی ہے کہ ایک آدمی خلافت کی ذمہ داری کو سنبھالے(4)
پھر اس نے کہا کہ وہ چھ افراد جس سے پیغمبراسلام (خود اس کے بقول ) مرتے دم تک راضی تھے ان کو بلایا جائے تا کہ مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کرنے کی ذمہ داری ان کے حوالے کی جائے وہ چھ افراد یہ ہیں: حضرت علی علیہ السلام، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد وقاص اورعبد الرحمن بن عوف۔
جب یہ لوگ خلیفہ کے قریب پہنچے تو خلیفہ نے غصہ کے عالم میں ان کی طرف دیکھا اورکہا تم لوگ ضرورچاہتے ہو کہ میرے بعد اس حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لو، پھر اس نے حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ ہر ایک سے گفتگو کی اوردلیلوں کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو بھی خلافت کے منصب کے لئے شائستہ نہیں جانا،پھراس وقت اس نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف دیکھا اورحضرت کی پوری زندگی میں اس نے کوئی ضعیف پہلوغیراس کے کہ آپ شوخ مزاج ہیں نہیں دیکھا اورکہا کہ اگر یہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں تو لوگوں پر حق اور واضح حقیقت کے ساتھ رہبری کریں گے ۔
اورآخر میں عثمان سے مخاطب ہوکرکہا کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ قریش نے تمہیں خلافت کے لئے منتخب کرلیا ہے اور تم نے بنی امیہ اور بنی ابی معط کو لوگوں پر مسلط کردیا ہے اور بیت المال کو ان کے لئے مخصوص کردیا ہے اور اس وقت عرب کے مخالف گروہ تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہیں تمہارے گھر کے اندر ہی قتل کردیں گے پھر مزید کہتا ہے کہ اگر یہ واقعہ رونما ہو تو میری بات کو یاد کرنا۔
پھراس نے شوریٰ کے عہدہ داروں کی طرف دیکھا اورکہا اگرتم لوگ ایک دوسرے کی مدد کروگے تو خلافت کے درخت کا پھل تم اور تمہارے بچے کھائیں گے لیکن اگر آپس میں ایک دوسرے سے حسد کیا اورایک دوسرے کی مخالفت کی تو معاویہ اس خلافت کو تم سے چھین لے گا۔
جب عمرکی گفتگو ختم ہوگئی تو اس نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور اس سے کہا کہ جب مجھے دفن کرکے واپس آنا تو پچاس مسلح افراد کے ساتھ ان چھ افراد کو خلافت کے لئے دعوت دینا اورسب کو ایک گھر میں جمع کرنا اورمسلح افراد کو دروازے پر حفاظت کے لئے کھڑا کرنا تاکہ یہ آپس میں کسی ایک کو خلافت کے لئے منتخب کرلیں اگر ان میں سے پانچ لوگوں نے موافقت کیا اور ایک آدمی نے مخالفت کیا تو اسے قتل کردینا اوراگرچارلوگوں نے موافقت کی اوردو آدمیوں نے مخالفت کی تو ان دونوں کو قتل کردینا اور اگر یہ گروہ دو حصوں میں برابر برابر تقسیم ہوجائے تو فیصلہ اس گروہ کے حق میں ہوگا جس میں عبد الرحمن ہوگا. اس وقت ان تین افراد جو کہ موافق ہیں انہیں خلافت کی دعوت دینا اور اگر موافقت نہ ہو تو دوسرے گروہ کو قتل کردینا اور اگر تین دن گذر جائے اور شوریٰ کے درمیان سے صحیح نظریہ حاصل نہ ہو تو ان چھ آدمیوں کو قتل کرنا اورمسلمانوں کو آزادی دیدینا تاکہ آئندہ وہ اپنا رہبر و خلیفہ منتخب کرلیں۔ جب لوگ عمر کو دفن کرکے واپس آئے تو محمد بن مسلمہ نے پچاس سپاہیوں کو جو ہاتھوں میں ننگی تلواریں لئے ہوئے تھے ان کے ہمراہ شوریٰ کے چھ افراد کو ایک گھر میں جمع کیا اور پھر ان لوگوں کو عمر کے حکم سے باخبر کیا۔
 سب سے پہلے جو چیزسامنے آئی وہ یہ ہے کہ طلحہ جس کا رابطہ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام سے اچھا نہ تھا عثمان کے لئے کنارہ کشی کرلی. کیونکہ وہ جانتا تھا کہ علی علیہ السلام اورعثمان کے ہوتے ہوئے کوئی بھی اسے خلافت کے لئے منتخب نہیں کرے گا لہذا بہتر ہے کہ عثمان کی موافقت میں اس کی طرف چلا جائے تاکہ علی علیہ السلام کی موافقت نہ کرسکے (لیکن طلحہ اورحضرت علی علیہ السلام کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی ابوبکر کی طرح قبیلۂ تمیم سے تھا کیونکہ ابوبکر کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد قبیلہ بنی تمیم اورخاندان بنی ہاشم کے درمیان سخت اختلاف تھا اور یہ اختلاف بہت دنوں تک باقی رہا۔)
طلحہ کے بعد زبیر کہ جو حضرت علی علیہ السلام کا پھوپھی زاد بھائی اورعلی علیہ السلام اس کے ماموں زاد بھائی تھے چونکہ وہ آپ کا رشتہ دار تھا لہذا امام علیہ السلام کی طرف آگیا اور سعد وقاص عبد الرحمن کی طرف چلا گیا کیونکہ وہ دونوں قبیلہ زہرہ سے تھے نتیجتاً شوری کے عہدہ داروں میں سے صرف تین آدمی باقی بچے اور ان میں سے ہر ایک شخص دو نظریہ کا قائل تھا اور کامیابی اس کے لئے تھی کہ ان تینوں میں سے ایک آدمی جس کی طرف مائل ہو۔
اس وقت عبد الرحمن حضرت علی علیہ السلام اورعثمان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ تم میں سے کون ہے جو اپنا حق دوسرے کودیدے اوراس کے فائدے کے لئے دور ہو جائے؟ دونوں خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا، عبد الرحمن نے پھرکہا میں تم لوگوں کو گواہ بنا کراپنے کو خلافت کے اس مسئلہ سے دور کرتا ہوں تاکہ تم میں سے کسی ایک کو خلافت کا حقدار بنائیں۔
پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکرکہتا ہے میں تمہاری بیعت کروں گا اورتم خدا کی کتاب اور سنت پیغمبر پر عمل کرنا اور شیخین( ابوبکر و عمر) کی پیروی کرنا۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس کی آخری شرط کو قبول نہیں کیا اورفرمایا کہ میں تمہاری بیعت کو قبول کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ کتاب خدا اور سنت پیغمبر اور اپنے علم واجتہاد کے مطابق عمل کروں گا۔
جب عبدالرحمن نے علی علیہ السلام کا منفی جواب سنا تو عثمان کو مخاطب کرکے وہی باتیں دہرائیں، عثمان نے فوراً جواب دیا، ہاں میں قبول کروں گا۔اس وقت عبدالرحمن نے اپنا ہاتھ عثمان کے ہاتھ پر رکھا اوراسے امیر المومنین کہہ کرسلام کیا اوراس جلسہ کا نتیجہ مسلمانوں کو جو گھر کے باہر منتظر تھے سنایا گیا۔


سوالات:


1- پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلفاء کے انتخاب کا طریقہ کیا تھا۔؟
2- خلفاء کے انتخاب میں مختلف طریقوں کے استعمال کرنے کی وجہ کیا تھی۔؟
3- ابوبکر کو خلیفہ منتخب کرنے میں عمر کا مقصد کیا تھا۔؟
4- عمر نے اپنے جانشین کے انتخاب میں کیا روش اپنائی۔؟
5- عبدالرحمن نے عثمان کو خلیفہ منتخب کرنے میں کیا کردار ادا کیا ۔؟
6- حضرت علی علیہ السلام نے عبدالرحمن کو مخاطب کرکے کیا فرمایا۔؟ 
 


منابع:


1- الامامة و السیاسہ ج1 ص 12، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معنزلی ج2 ص 5 
2- عبد اللہ بن عثمان ابوبکرکا نام اور ابوبکرکنیت ہے، الامامة و السیاسہ  ج1 ص 88
3- الامامة والسیاسة ج1 ص 22
4- تعجب خیزبات یہ ہے کہ حکومت کے تمام کارندے اور اس کے ساتھ میں رہنے والوں کو یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ جانشین معین نہ کرنا اور لوگوں کو بغیر کسی رہنما کے چھوڑ دینا عقلمندی نہیں ہے بلکہ ضروری تھا کہ ایک شائستہ انسان کو جانشین کے عنوان سے معین کیا جائے تاکہ امت اسلامیہ منتشر نہ ہوجائےاور حکومت اسلامی اپنی راہ پر گامزن رہے لیکن یہی افراد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنسبت کہ جو اسلامی امت کے بانئ تھے اور برسہا برس اس کی آبیاری میں زحمتیں برداشت کی اور شب و روز سعی و کوشش کرتے رہے جس کے نتیجے میں قریش اور مکہ کے سخت ترین اور بدترین دشمنوں سے اسلامی امت کو نجات عطا کی اور امت کو منظم و مستحکم کیا( آنحضرت نے اس راہ میں کس قدر زحمتیں برداشت کی ہیں اس کی تفصیلات کے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ زندگی کی طرف رجوع کریں) ان تمام مطالب کے پیش نظر تیئس برس خون دل پینے کے بعد امت کو بغیر کسی جانشین کو معین نہیں کیا اوراپنے بعد کے لئے کوئی بھی فکر نہیں کی؟ قارئين کرام سے درخواست کرتے ہیں کہ اب فیصلہ کریں کہ ایسا پیغمبرکہ جو تمام درایت و تدبیر اور آئندہ نگر تھا اور خداوندعالم کہ جو خالق عقل و شعور ہے اور اپنے پیغمبر کو امت کی تشکیل کا حکم دیا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبرکے بعد اس قدر بے توجہی ہوجائے گا اور کیا ایسا کام خداوندعالم کی جانب سے ظلم شمار نہیں ہوگا؟ اورکیا اس کام کے نتیجے میں قرآن کریم کی تمام تعلیمات، زحمتیں، فرہنگ و ثقافت اور پیغامات ضائع نہیں ہوجائیں گے ؟لہذا تعصب کی عینک اتار کر حقیقی فیصلہ کیا جائے۔   
 

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: