مواد کا کوڈ۔: 68
ہٹس: 1856
تاریخ اشاعت : 28 September 2023 - 10: 06
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (29)
یہ صرف عبداللہ بن مسعود ہی نہ تھے جو خلیفہ کی بے توجہی کا نشانہ بنے بلکہ عمار یاسر بھی اس کے ظلم و ستم کانشانہ بنے، ان پر ظلم وستم اور اہانت کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ نے بیت المال کے بعض زیورات کو اپنے اہل وعیال کے لئے مخصوص کردیا تھا اور جب لوگ یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے اور اعتراض کیا تو وہ اپنے دفاع اور صفائی کے لئے منبرپرگیا اورکہا:

٢۔عمار یاسر پر ظلم وستم


یہ صرف عبداللہ بن مسعود ہی نہ تھے جو خلیفہ کی بے توجہی کا نشانہ بنے بلکہ عمار یاسر بھی اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے، ان پر ظلم وستم اور اہانت کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ نے بیت المال کے بعض زیورات کو اپنے اہل وعیال کے لئے مخصوص کردیا تھا اور جب لوگ یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے اور اعتراض کیا تو وہ اپنے دفاع اور صفائی کے لئے منبرپرگیا اورکہا: مجھے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی بیت المال سے لے لوں گا اوران لوگوں کو سخت سزا دوں گا جو اعتراض کریں گے حضرت علی علیہ السلام نے خلیفہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: تجھے اس کام سے روکا جائے گا۔ عمارنے کہا: خدا کی قسم میں وہ پہلا شخص ہوں جسے اس کی وجہ سے سزا دی جائے گی. اس وقت عثمان نے تند لہجے میں کہا ،اے بڑے پیٹ والے میرے سامنے تمہاری یہ ہمت ؟ اسے پکڑلو، انہیں پکڑلیا گیا اوراتنا مارا کہ حالت غیرہوگئی. عمار کے دوستوں نے انہیں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی ام سلمہ سلام اللہ علیہا کے گھر پہنچایا، جب انہیں ہوش آیا توکہا: خدا کا شکر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مجھ پر ظلم وستم ہوا ہے .جب عائشہ کو اس واقعہ کی خبرملی تو اس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بال،لباس اور نعلین باہر نکالا اورکہا ابھی پیغمبر کا بال،لباس اور نعلین پرانا نہیں ہوا ہے کہ تم نے ان کی سنت کو نظر اندازکردیا ہے، عثمان عائشہ کی باتیں سن کر بہت غصہ ہوا مگر انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔
اہل سنت کے مشہور مورخ ابن قتیبہ اپنی کتاب '' الامامۃ والسیاسۃ ''میں عمار پر ظلم و ستم کے واقعہ کو دوسری طرح نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابی ایک جگہ جمع ہوئے اورخلیفہ وقت کے نام خط لکھا اوراس میں اس کے ظلم وستم اور کمزوریوں کے بارے میں یہ تحریر کیا:
1۔خلیفہ نے چند چیزوں میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اورشیخین کی مخالفت کی ہے۔
2۔ افریقہ سے آئے ہوئے مال غنیمت کوجو کہ رسول خدا اور ان کے اہل بیت علیہم السلام اور یتیموں اور مسکینوں کا حق تھا ،تمام مال مروان کے سپرد کردیا ۔
3۔عثمان نے اپنی بیوی نائلہ اور اپنی بیٹی کے لئے مدینے میں سات گھر بنوائے۔
4۔ مروان نے بیت المال کی رقم سے مدینہ میں بہت سے ''قصر'' بنوائے ۔
5۔ عثمان نے تمام سیاسی امورامویان کے سپرد کردیا تھا اورمسلمانوں کے تمام امور کی دیکھ بھال ایسے نوجوان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی جنہوں نے رسول خدا کو ہرگزنہیں دیکھا تھا ۔
6۔ کوفہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے شراب پی کر مستی کے عالم میں صبح کی نماز چاررکعت پڑھائی اور پھر مامومین کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو کچھ اوررکعتوں میں اضافہ کروں ۔
7۔ ان تمام چیزوں کے باوجود عثمان نے ولید پرشراب پینے کی حد جاری نہیں کی ۔
8۔ مہاجروانصار کو چھوڑ دیا ہے اور ان سے مشورہ وغیرہ نہیں کرتا۔
9۔ بادشاہوں کی طرح مدینے کے اطراف کی تمام زمینوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
10۔ وہ لوگ جنہوں نے ہرگزپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کو درک نہیں کیا تھا اورنہ کبھی جنگ میں شرکت کی تھی اور نہ اس وقت ہی دین کا دفاع کررہے ہیں انہیں بہت زیادہ مال ودولت دیا اور بہت زیادہ زمین ان کے نام کردی ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے موارد ہیں ۔
ایک گروہ جس میں دس آدمی شامل تھے ان کے توسط سے یہ خط لکھا گیا لیکن اس کے عکس العمل کی وجہ سے لوگوں نے اس پردستخط نہیں کیا اوراسے عمارکے حوالے کیا کہ عثمان تک پہنچا دیں،وہ عثمان کے گھرآئے اس وقت مروان اور بنی امیہ کے دوسرے گروہ عثمان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھےعمار نے خط عثمان کے حوالے کیا خلیفہ خط پڑھنے کے بعد لکھنے والوں کے نام سے باخبر ہوگیا لیکن وہ سمجھ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی ڈرکے مارے اس کے گھر نہیں آیا ہے یہی وجہ تھی کہ اس نے عمار کو مخاطب کرکے کہا: میرے ساتھ تمہاری جرأت بہت بڑھ گئی ہے مروان نے خلیفہ سے کہا:اس کالے غلام نے لوگوں کو تمہارے خلاف بھڑکایا ہے اگر اسے قتل کردیا گویا تم نے اپنا اوردوسروں کا بدلہ لے لیا ہے۔ عثمان نے کہا: انہیں مارو،سب نے انہیں اتنا مارا کہ بہت زیادہ زخمی ہوگئے اورحالت غیرہوگئی پھراسی حالت میں انہیں گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔ ام سلمہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی اس واقعہ سے باخبر ہوئیں اورانہیں اپنے گھرلے آئیں۔ قبیلۂ بنی مغیرہ کے لوگ جوعمار کے ہم فکر و خیال تھے اس واقعہ سے بہت زیادہ ناراض ہوئے۔ جب خلیفہ نماز ظہر پڑھنے کے لئے مسجد میں آیا اس وقت ہشام بن ولید نے عثمان سے کہا: اگرعمار ان زخموں کی تاب نہ لاکر مرگیا تو بنی امیہ کے خاندان کے ایک ایک شخص کو قتل کر ڈالوں گا۔ عثمان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: تم اس کام کی جرأت و طاقت نہیں رکھتے، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اوردونوں کے درمیان بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوا، یہاں گفتگو طولانی ہونے کی وجہ سے اس کے نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔(1)


پانچویں وجہ: بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کرنا


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہت سے صحابی اوردوست جوامت کے درمیان حسن سلوک اورتقوے میں بہت مشہور تھے ان لوگوں کو عثمان نے کوفہ سے شام اورشام سے ''حمص'' اور مدینہ سے ''ربذہ'' کی طرف جلا وطن کردیا۔ تاریخ اسلام کا یہ باب بہت ہی دردناک باب ہے اوراس کا مطالعہ کرنے والا ایک ظالم وستمگر حکومت و خلافت کا احساس کرتا ہے اورہم اس باب میں سے چند کی طرف مختصرا اشارہ کریں گے اورچونکہ تقریباً سبھی لوگ ابوذرغفاری کی جلا وطنی سے باخبر ہیں لہذا ان کے حالات نقل کرنے سے پرہیزکرتے ہیں اور عثمان کی خلافت کے زمانے میں اوردوسرے بزرگ جو جلا وطن ہوئے ہیں ان کے حالا ت قلمبند کر رہے ہیں۔


مالک اشتراور ان کے ساتھیوں کی جلاوطنی


قارئین کرام جیسا کہ ہم بیان ہوچکے ہیں کہ خلیفۂ سوم نے افکارعمومی کی بنا پرکوفہ کے بدترین حاکم ولید بن عتبہ کو حاکمیت کے منصب سے دورکرکے سعید بن عاص اموی کو کوفہ کے تمام امورکی خبرگیری کے لئے حاکم بنا دیا اوراسے حکم دیا کہ قرآن کے قاریوں اور مشہورومعروف افراد کی عمدہ طریقے سے خبر گیری کرنا یہی وجہ تھی کہ کوفہ کے نئے حاکم کی مالک اشتراوران کے دوستوں کے ساتھ اوراسی طرح صوحان کے بیٹے زید اور صعصعہ کے ساتھ جلسے اور گفتگو وغیرہ ہوتی تھی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوفہ کے حاکم نے مالک اشتر اوران کے ہمفکروں کو خلیفہ کا مخالف بتایا اوراس سلسلے میں اس نے خلیفہ سے پوشیدہ طور پر خط و کتابت کی اور اپنے خط میں لکھا کہ مالک اشتراوران کے ساتھی قرآن مجید کے قاری ہیں لیکن میں ان کی موجودگی میں اپنا وظیفہ انجام نہیں دے سکتا،خلیفہ نے حاکم کوفہ کو جواب دیا کہ اس گروہ کو جلاوطن کرکے شام بھیج دو اوراسی کے ساتھ مالک اشترکو بھی خط لکھا کہ تم اپنے دل میں کچھ ایسی باتیں چھپائے ہو کہ اگر اس کو ظاہر کیا تو تمہارا خون بہانا حلال ہوجائے گا اور مجھے ہرگز اس بات کی امید نہیں ہے کہ تم اس خط کو دیکھنے کے بعد اپنے مشن سے دورہو جاؤ گے مگر یہ کہ تم پر سخت بلا و مصیبت نازل ہوجس کے بعد تمہاری زندگی ختم ہوجائے جیسے ہی یہ میرا خط تمہارے پاس پہنچے فوراً شام کی طرف چلے جانا۔
جب خلیفہ کا خط کوفہ کے حاکم کے پاس پہنچا تو اس نے دس آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ جس میں کوفہ کے صالح اور متدین افراد تھے، جلاوطن کرکے شام بھیج دیا جن کے درمیان مالک اشتر کےعلاوہ صوحان کے بیٹے زید و صعصعہ اورکمیل بن زیاد نخعی، حارث عبد اللہ حمدانی وغیرہ جیسی اہم شخصیتیں شامل تھیں۔
قرآن کریم کے قاریوں اوربہادرو توانا خطیبوں اور متقیوں کے اس گروہ نے شام کے حاکم معاویہ کی زندگی کو بھی عذاب بنادیا تھا اور قریب تھا کہ وہاں کے افراد شام کے حاکم اور خلافت عثمان کے خلاف انقلاب برپا کردیں لہذا معاویہ نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس گروہ کا شام میں موجود رہنا خلافت کے لئے خطرہ کا باعث ہے اس نے اپنے خط میں یہ لکھا کہ ''تم نے ایسے گروہ کو شام میں جلاوطن کرکے بھیجا ہے کہ جس نے ہمارے شہر و دیار کو فاسد اور ان میں جوش و خروش پیدا کردیا ہے میں ہرگزمطمئن نہیں ہوں کہ شام بھی کوفہ کی طرح مشکلات میں گرفتارنہ ہو اورشامیوں کی فکر صحیح و سالم اوراستحکام کوخطرہ و مشکل نہ ہوجائے، معاویہ کے خط نے خلیفہ کو بزدل بنادیا،خلیفہ نے جواب میں لکھا کہ اس گروہ کو حمص (شام کا ایک دوردراز پسماندہ علاقہ) جلاوطن کر کے بھیج دو۔ (2)
جو لوگ خلیفۂ سوم کے نمائندوں کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر جلاوطن ہوئے ان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگ حق بات اور خلافت کے نمائندوں پر تنقید کیا کرتے تھے وہ لوگ یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ بھی سیرت پیغمبراسلام پر چلے۔
کعب بن عبدہ نے اپنی دستخط وغیرہ کے ساتھ خلیفہ سوم کو خط لکھا اوراس میں کوفہ کے حاکم وقت کے برے کاموں کی شکایت لکھی اورخط کو ابوربیعہ کے حوالے کیا جس وقت قاصد نے خط عثمان کے سپرد کیا فوراً اسے گرفتار کرلیا گیا۔
عثمان نے کعب کے تمام ہمفکروں کو جنہوں نے بغیر دستحط کے اجتماعی طورپر خط لکھا تھا اورابوربیعہ کودیا تھا اس سے باز پرس کرنے لگا لیکن اس نے ان لوگوں کا نام بتانے سے انکار کردیا ۔ خلیفہ نے قاصد کو سزا دینے کے لئے کہا لیکن علی علیہ السلام نے اسے اس کام سے روک دیا پھر عثمان نے اپنے کوفہ کے حاکم سعد بن العاص کو حکم دیا کہ کعب کو بیس تازیانہ مارا جائے اور اسے ری جلاوطن کر کے بھیج دو۔(3)
عبدالرحمن بن حنبل جمحی،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی کو مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کردیا گیا، ان کا جرم یہ تھا کہ خلیفہ کے عمل پریعنی وہ مال غنیمت جوافریقہ سے آیا تھا اسے مروان کو دیدیا تھا اعتراض کیا تھا اوراس سلسلے میں اشعار بھی کہا تھا۔
                   وَ اَعطَیتَ مَروانَ خُمسَ الغَنیمۀ        آثَر تَدُ وَ حَمَیتَ الحِمی
" مال غنیمت کا پانچواں حصہ مروان کودیدیا اوراسے دوسروں پر مقدم سمجھا اور اپنے رشتہ داروں کی حمایت کی۔"
 یہ مرد مجاہد جب تک عثمان زندہ رہا خیبر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔(4)


سوال:


1- پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں نے خط میں عثمان کی کن کن غلطیوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔؟


منابع :


1- الامامة و السیاسة ج1 ص 29
2- الانساب الاشراف ج5 ص 43 ، تاریخ طبری ج3 ص 360 تا 368   
3- انساب الاشراف ج5 ص 43، تاریخ طبری ج3 ص 360 تا 372
4- تاریخ یعقوبی ج2 ص 150

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: