مواد کا کوڈ۔: 67
ہٹس: 1833
تاریخ اشاعت : 27 September 2023 - 21: 58
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (28)
عثمان کے خلاف شورش و حملہ کی تیسری وجہ،اسلام کے حساس مرکزوں پرامویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی۔

تیسری وجہ: اموی حکومت کی تشکیل


عثمان کے خلاف شورش و حملہ کی تیسری وجہ،اسلام کے حساس مرکزوں پرامویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی۔
قابل غوربات یہ ہے کہ جس وقت خلیفہ دوم نے چھ افراد پرمشتمل شوری کو تشکیل دیا سوائے حضرت علی علیہ السلام کے ہرایک کے لئے ضعیف نکات بیان کئے منجملہ عثمان کے متعلق کہا تھا:اگر عثمان خلافت کی با گ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا تو ابی معط کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط کردے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے قتل کردیں گے۔(1)
جب عثمان نے ولید بن عقبہ کو کوفہ کا گورنر بنایا تو امیرالمومین علیہ السلام اور طلحہ وزبیر نےعمر کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے عثمان سے کہا: الم یوصک عمرالا تحمل آل بنی معیط وبنی امیہ علی رقاب الناس ؟(2)
" کیا عمرنے تم سے سفارش نہیں کی تھی کہ آل بنی معیط اور بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا؟"
لیکن آخر میں نتیجہ یہی ہوا کہ بنی امیہ نے دیکھا کہ ابو موسی اشعری یمنی کوفہ کا حاکم تھا اور یہ چیزخلیفہ کے ساتھیوں سے برداشت نہ ہوسکی کہ ایک غیراموی شخص اس منزل پرفائز ہو،یہی وجہ تھی کہ شبل بن خالد نے ایک خصوصی جلسہ میں جس میں تمام اموی افراد حاضر تھے کہا: اتنی زیادہ زمین ابو موسی اشعری کو کیوں دیدیا ہے ؟خلیفہ نے کہا: تمہاری نظر میں کون بہتر ہے ؟شبل نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا اس وقت اس کی عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی (3)
اسی فکرکا نتیجہ تھا کہ حاکم کوفہ سعید بن عاص اموی نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ عراق قریش کے جوانوں کی چراگاہ ہے۔
اگرحکومت عثمان میں کام کرنے والوں کی فہرست کو تاریخ کے اوراق سے نکالا جائے تو اس وقت خلیفہ سوم کی بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ اس نے کہا تھا ۔
" لو ان بیدی مفاتیح الجنّة لاعطیتھابنی امیہ حتی یدخلوامن اخرھم۔"(4)
" اگر جنت کی کنجی میرے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے میں بنی امیہ میں دیدیتا تاکہ بنی امیہ کا آخری شخص بھی جنت میں داخل ہوجاتا۔"
اسی بے جا اور بے حساب محبت کا نتیجہ تھا کہ لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم وستم اور حکومت کے سیاسی رہنماؤں کے ظلم و جبر سے عاجز ہو گئے تھے اور خلیفہ کے خلاف ایسی مخالفتیں معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں جو عثمان کی خلافت اور اس کی زندگی کو ختم کردے ۔یہ تمام موارد جوذکرہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ عثمان کی ہمیشہ یہی کو شش تھی کہ ایک اموی حکومت تشکیل پاجائے.


چوتھی وجہ: پیغمبراسلام کے صحابہ پر ظلم وستم کرنا


عثمان کے خلاف شورش و بغاوت کی چوتھی وجہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی بے حرمتی تھی جو خود عثمان کی طرف سے یا اس کی طرف سے معین کئے ہوئے شخص کے ہاتھوں انجام دی جاتی تھی،یہا ں پر اس سلسلے میں صرف دو نمونہ ہی پیش کرنا کافی ہے ۔


1- عبداللہ بن مسعود پر ظلم وستم


عبداللہ بن مسعود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بزرگ صحابی تھے تاریخ اسلام میں جن کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں ہیں اس کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے اس کے ذریعے سے ہم اپنے ایمان کو قوی اورمستحکم اور معارف اسلامی کی تلاش وجستجو میں قرآنی اعتبارسے محکم کرسکتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کرمسجدالحرام میں اورقریش کی انجمن کے سامنے بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی تا کہ خدا کے کلام کو قریش کے اندھے دلوں تک پہنچا دیں، جی ہاں، دوپہر کے وقت جب قریش کے سردار جمع ہوکرتبادلہ خیال کررہے تھے کہ اچانک عبداللہ نے'' مقام ابراہیم''کے سامنے کھڑے ہوکربلند آواز میں سورہ " رحمن" کی چند آیتوں کی تلاوت کی، قریش نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا:ابن ام عبد" کیا کہہ رہا ہے ؟ ایک نے کہا جو قرآن محمد پر نازل ہوا ہے اسے ہی پڑھ رہا ہے اس وقت سب کے سب اٹھے اور عبداللہ پر سب وشتم کیا اور اس کے چہرے پرطمانچہ مارکر اس کی آواز کو خاموش کردیا،عبد اللہ زخمی چہرے کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگئے لوگوں نے ان سے کہا، تم سے ہمیں اس بات کا خوف تھا،عبداللہ نے ان کے جواب میں کہا دشمنان خدا آج کی طرح کبھی بھی میری نگاہ میں اتنے ذلیل وحقیر نہ تھے اور پھرکہا کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو میں کل پھر اسی کام کو دوبارہ کروں! ان لوگوں نے کہا اتنی ہی مقدار میں جو ان لوگوں کو پسند نہیں تھا سنا ہے بس یہی کافی ہے (5)
یہ اس صحابی کے تابناک زندگی کے خوشنما اوراق ہیں جس نے اپنی عمر کو جوانی کی ابتداء سے مسلمانوں کو قرآن سکھانے اورتوحید کا درس دینے میں صرف کیا ہے۔ عبداللہ کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ تاریخ نے بیان کیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہاں تفصیل سے بیان کیا جاتا لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ایسے مومن اورخدمت گزار صحابی جس کی خطا صرف یہ تھی کہ اس نے کوفہ کے حاکم ولیدبن عتبہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔
سعد وقاص کوفہ کا حاکم تھا عثمان نے اسے اس منصب سے ہٹادیا اور اپنے رضاعی بھائی ولید بن عتبہ کو ان کی جگہ پر معین کردیا، ولید نے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بیت المال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس کی کنجی عبداللہ بن مسعود کے پاس تھی،عبداللہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا ولید نے اس واقعہ کی رپورٹ عثمان کو بھیجی،عثمان نے عبداللہ مسعود کے نام خط لکھا اور ولید کو بیت المال کی کنجی نہ دینے پرملامت کیا،عبداللہ نے خلیفہ کے خوف وڈر کی وجہ سے کنجی حاکم کے طرف پھینک دی اورکہا کیسا دن آگیا کہ سعد وقاص کو ان کے منصب سے دور کر دیا گیا اوران کی جگہ پر ولید بن عتبہ کو منصوب کردیا گیا۔عبداللہ نے یہ باتیں کہیں اور چونکہ عثمان نے انھیں مدینہ بلایا تھا لہذا مدینے کی طرف روانہ ہو گئے وہ جیسے ہی مدینہ میں داخل ہو‏ئے تو سیدھے مسجد گئے اور خلیفہ کو منبر پرمصروف گفتگو پایا۔
مشہورمورخ بلاذری لکھتے ہیں:جب عثمان کی نگاہ عبداللہ بن مسعود پرپڑی تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا ابھی ابھی تمہارے درمیان ایک بد بودار جانور وارد ہوا ہے وہ جاندارجو خود اپنی غذا پرچلتا ہے اوراس پرقے کرکے اسے خراب کردیتا ہے۔
عبداللہ نے جیسے ہی یہ سنا جواب دیا کہ میں ایسا ہرگزنہیں ہوں بلکہ میں پیغمبراسلام کا صحابی،جنگ بدر کا سپاہی اوربیعت الرضوان میں بیعت کرنے والا ہوں۔اس وقت عائشہ نے اپنے کمرے سے فریاد بلند کی،عثمان ! کیوں پیغمبر کے صحابی کی توہین کررہے ہو؟اورپھرچہ می گوئیاں شروع ہو گئیں.شروآفت سے بچنے کے لئے عبداللہ کو خلیفہ کے حکم سے مسجد سے باہر نکال دیا گیا ۔
ابن زمعہ نے اسے زمین پرگرادیا۔ کہا جاتا ہے کہ حجوم ،عثمان کے غلام نے اسے اٹھایا اور پھر بہت تیززمین پراس طرح سے گرایا کہ ان کے دانت ٹوٹ گئے اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اعتراض کیا اورفرمایا: صرف ولید کی شکایت پرتم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی پر یہ ظلم کررہے ہو؟بالآخر امام علیہ السلام عبداللہ کو اپنے گھر لے گئے لیکن عثمان نے اسے مدینہ سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی وہ مدینے ہی میں رہے یہاں تک کہ  سن بتیس ہجری میں عثمان کے قتل ہونے سے تین سال پہلے اس دنیا سے کوچ کر گئے (6)
 جب عبداللہ نے اپنے کو موت سے قریب پایا توعماراورایک روایت کی بنا پرزبیر کو اپنا وصی قراردیا کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا، یہی وجہ تھی کہ رات میں نمازجنازہ ہوئی اوردفن کر دیا گیا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی جو کہ بزرگ قاریوں میں سے تھے اورجن کے بارے میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ "عَلِمَ القُرآنَ وَ عَلِمَ السُّنَۀ ثُمَّ انتَهی و کَفی بِه علماً."(7)
" یعنی انہوں نے قرآن اور سنت کو سیکھا اور آخرت تک پہنچایا اوران کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے۔

 

سوال:


1- پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ پر ظلم و ستم کرنے کی وجہ کیا تھی۔؟


منابع:


1- انساب بلاذری ج5 ص 16
2- انساب بلاذری ج5 ص 16
3- تاریخ طبری، کامل ابن اثیر، انساب بلاذری
4- مسند احمد بن جنل ج1ص62
5- سیرہ ابن ہشام ج1ص337
6- حلیتہ الاولیاء ج 1 ص138
7- انساب ج5 ص36، تاریخ ابن کثیر ج7 ص163

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: