مواد کا کوڈ۔: 83
ہٹس: 1834
تاریخ اشاعت : 16 October 2023 - 09: 53
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (44)
حضرت امام حسن علیہ السلام نے عرض کیا:بابا یہ کیسا فال بد بیان کررہے ہیں آپ نے فرمایا: اے بیٹا یہ فالِ بد نہیں کہہ رہا ہوں لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ میں قتل کیا جاؤں گا۔ اس وقت آپ نے اپنے کمربند کو موت کے لئے محکم باندھا اور کچھ اشعار پڑھتے ہوئے مسجد کی سمت روانہ ہوئے۔

حضرت علی علیہ السلام کی مسجد کی طرف روانگی


امام حسن علیہ السلام نے عرض کیا:بابا یہ کیسا فال بد بیان کررہے ہیں آپ نے فرمایا: اے بیٹا یہ فالِ بد نہیں کہہ رہا ہوں لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ میں قتل کیا جاؤں گا۔(1)
  اس وقت آپ نے اپنے کمربند کو موت کے لئے محکم باندھا اور کچھ اشعار پڑھتے ہوئے مسجد کی سمت روانہ ہوئے جس کا ترجمہ یہ ہے:
" اپنے کمرکو مضبوطی سے باندھ لو کیونکہ موت تم سے ضرورملاقات کرے گی اور جب موت تمہارے قریب آئے تو اس سے فریاد و چیخ و پکار نہ کرو۔(2)
امام علیہ السلام مسجد میں داخل ہوئے اورنماز کے لئے کھڑے ہوئے اور تکبیرة الاحرام کہا اورپھر قرأت کے بعد سجدے میں گئے اس وقت ابن ملجم نے زہر سے بجھی ہوئی تلوارآپ کے سرِ مبارک پر ماری اور یہ فریاد کئے جا رہا تھا کہ''للّٰہِ الحکم لاٰ لَکَ یا علی'' اوراتفاق کہ یہ ضربت بھی اسی جگہ پر لگی جہاں پہلے عمر بن عبدود نے تلوار ماری تھی۔(3) اور آپ کا سر پیشانی تک پارہ ہوگیا۔
حضرت علی علیہ السلام کے سر سے محراب میں خون جاری ہوا جس نے داڑھی کو رنگین کردیا اس وقت حضرت نے فرمایا:''فُزتُ وربَّ الکعبةَ'' رب کعبہ کی قسم کی میں کامیاب ہوگیا۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔''مِنْھٰا خَلَقْنٰاکُم و فِیھٰا نُعِیْدُ کمْ و مِنْھٰا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْری''(4)
" تم لوگوں کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر اسی میں واپس کردیں گے اور پھر دوبارہ اسی میں سے تم کو اٹھائیں گے۔"
جب ابن ملجم کو پکڑ کر حضرت علی علیہ السلام کے پاس لایا گيا تو حضرت نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا:  اگر میں مر گیا تو اسے قتل کردینا جس طرح اس نے مجھے قتل کیا ہے اوراگرمیں بچ گیا تو پھر میں دیکھوں گا کہ اس کے بارے میں میرا کیا نظریہ ہے، ابن ملجم نے کہا میں نے اس تلوار کو ایک ہزار درہم میں خریدا ہے اور ایک ہزار درہم کے زہر میں اسے بجھایا ہےاگر میں خیانت کروں تو خد ا مجھے ہلاک کردے۔(5)  اس وقت حضرت کے لئے دودھ لایا گیا آپ نے تھوڑا سا دودھ پیا اورفرمایا اپنے قیدی کو بھی اس دودھ سے تھوڑا سا دے دواور اسے اذیت نہ کرنا ۔
جس وقت امام علیہ السلام کو ضربت لگی اس وقت کوفہ کے تمام حکیم آپ کے پاس آئے اوران لوگوں کے درمیان سب سے ماہر اثیر بن عمرو تھا جو زخموں کا علاج کرتا تھا جب اس نے زخم دیکھا تو حکم دیا کہ بکری کا پھیپھڑا جو گرم ہو لایا جائے اور پھر اس نے پھیپھڑے میں سے ایک رگ نکالی اور زخم پر رکھا اور جب اسے باہر نکلا تو کہا یا علی اپنی وصیتیں بیان کیجیۓ کیونکہ ضربت کا زخم دماغ تک پہنچ گیا ہے اورعلاج سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔  
اس وقت امام علیہ السلام نے کاغذ اوردوات منگوایا اوراپنی وصیت میں اپنے دونوں بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو مخاطب کرتے ہوئے تحریرکیا یہ وصیت اگرچہ حسنین علیہما السلام سے کیا ہے مگرحقیقت میں یہ تمام انسانوں کے لئے رہتی دنیا تک ہے اس وصیت کو بعض محدثین اورمورخین نے جو سید رضی علیہ الرحمہ سے پہلے اوران کے بعد میں تھے سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ لیکن اصل وصیت اس سے زیادہ ہے جسے مرحوم سید رضی علیہ الرحمہ نے نہج البلاغہ مکتوب نمبر سینتالیس کے ذيل میں تحریر کیا ہے۔
اس وصیت نامہ میں امام علیہ السلام نے بعض موضوعات جیسے قرآن، جہاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکروغیرہ پربھرپورتوجہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور سب سے آخرمیں ارشاد فرمایا:
" ألاٰ لاٰ تَققتُلُنَّ بَیْ اِلی قَاتِلیْ، اُنْظُرُوْ اِذَا أنَامِتُّ مَنْ ضَربَتِہِ ھٰذہِ فَا ضْرِبُوْہُ ضَرْبَةً بِضَرْبةً، وَلاٰ تُمَثّلُوْا بِالرّجُلٍ فَاِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یَقْولُ''اِیاکُمْ ا المُثلَةَ وَ لَوْ بَالْکلْبِ الْعَقُوْرِ۔"(6)
''خیال رکھو جب قتل کی ضربت سے میری موت واقع ہوجائے تو اسے ایک ضربت کے بدلے ایک ہی ضربت لگانا اوردیکھواس کی لاش مثلہ نہ کرنا (یعنی ناک،کان وغیرہ نہ کاٹے جائیں) کیونکہ میں نے رسول خداصلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''خبردار کسی کی لاش کو مثلہ نہ کرنا اگر چہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو۔''
امام علیہ السلام کے بیٹے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور بابا کا غم ان کے گلوں میں اٹکا ہوا تھا اورحضرت کی بہترین روح فرسا گفتگو کو سن رہے تھے،امام علیہ السلام وصیت کرتے کرتے بے ہوش ہوگئے اورجب دوبارہ آنکھ کھولا تو فرمایا: اے حسن، میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، آج کی رات میری عمر کی آخری رات ہے جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھے اپنے ہاتھوں سے غسل دینا اور کفن پہنانا اور تم خود میرے کفن و دفن کا انتظام کرنا اورمیری نمازجنازہ پڑھانا اور رات کی تاریکی میں شہرکوفہ سے دور پوشیدہ طور پرمجھے دفن کرنا تا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہونے پائے۔
سراقدس پر ضربت لگںے کے بعد حضرت علی علیہ السلام دو دن زندہ تھے اوراکیس رمضان المبارک سنہ چالیس ہجری قمری شب جمعہ کو ترسٹھ برس کی عمر میں شہید ہوگئے، آپ کے فرزند امام حسن علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے غسل دیا اورنمازجنازہ پڑھائی اورنماز میں سات تکبیریں کہیں اور پھر فرمایا''اماانّھا لاٰ تُکَبّرُ علیٰ احدٍ بعدہ'' یعنی جان لو کہ علی علیہ السلام کے جنازہ کے بعد کسی بھی شخص کے جنازے پر سات تکبیریں نہیں کہی جائیں گی۔


حضرت علی علیہ السلام کا غم


امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد حسن بن علی علیہما السلام نے خطبہ ارشاد فرمایا اورخداوندعالم کی حمد و ثنا اور پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردورد بھیجنے کے بعد فرمایا:ألاٰ انّہ قد مضیٰ فی ھٰذہِ الّلیلة رجلً لم یدرکہ الاولون ولن یری مثلہ الاخرون، من کان یقاتل وجبرئیل عن یمینہ و میکائیل عن شمٰالہ واللہ لقد تُوفّی فی اللیلہ الّتی قبض فیھا موسی بن عمران ورفع فیھا عیسی بن مریم وانزل القران،الا وانّہ مٰا خلف صفراء ولاٰ بیضاء الا سبعمائة درھمٍ فضّلت من عطائہ أراد ان یبتاع بھٰا خادماً لا ھلہ(7)
" آج کی رات وہ شخص اس دنیا سے گزر گیا جس کی حقیقت تک پہلے والے بھی نہ پہنچے تھے اورآئندہ آنے والے بھی ہرگزاس کے جیسا نہیں دیکھ پائیں گے، یہ وہ شخص تھا کہ جب بھی جنگ کرتا تھا تواس کی داہنی طرف جبرئیل اور بائیں طرف میکائیل رہتے تھے اوراس طرح سے ایک عظیم المرتبت انسان کی نوارنی اور معنوی زندگی جس کی ولادت کعبہ میں اور شہادت مسجد میں ہوئی ختم ہوگئی،وہ انسان کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس کی مثال نہ دنیا نے دیکھی اور نہ دیکھ پائے گی نہ جہاد اورایثار میں اس کا کوئی نظیر تھی نہ اس دنیا کے اصرار و رموز اورعلم میں اس کی کوئی مثال تھی اورنہ فضائل ہی میں کوئی آپ جیسا تھا یہاں تک کہ آپ کا وجود ہی ایسا تھا کہ کسی بھی شخص کے اندر یہ تمام خصلتیں آہی نہیں سکتی تھی۔افسوس کہ ایسے عظيم المرتبت شخص کو دنیا پہچان نہ سکی اور قتل کردیا افسوس بلکہ ہزاروں افسوس کوردل افراد نے آپ کی قدر نہ کی اور ہدایت کے ستون کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منہدم کردیا اورآپ کے چاہنے والوں کو ہمیشہ کے لئے سوگوار بنا دیا۔


سوالات:


1- حضرت علی علیہ السلام نے ابن ملجم کو سزا دینے کے بارے میں کیا وصیت فرمائی۔؟
2-حضرت علی علیہ السلام نے اپنی وصیت میں کن چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔؟


منابع:


1- کشف الغمہ ج1 ص584
2- مروج الذہب ج2 ص429
3- کشف الغمہ ج1 ص 548
4- سورة طٰہٰ آیت 55
5۔ کشف الغمہ ج1ص586 ، تاریخ یعقوبی ج6  ص185
6- نہج البلاغہ مکتوب نمبر 47
7- تاریخ یعقوبی ج 2 ص213

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: