مواد کا کوڈ۔: 61
ہٹس: 74
تاریخ اشاعت : 20 September 2023 - 09: 57
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (22)
اہل سنت کے علماء نے لفظ "غنیمت" کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو مال مسلمانوں کو کفار کے ساتھ جنگ میں حاصل ہوتا ہے اسے مال غنیمت کہتے ہیں لہذا خمس کو ہی مال غنیمت قرار دیا ہے۔ لیکن شیعہ فقہاء و مفسرین نے معصومین علیہم السلام کے فرمان کے مطابق اس آيت کی یہ تفسیر کی ہے کہ" غنیمت" سے مراد صرف جنگ میں ملنے والے مال پر ہی اطلاق نہیں ہوتا بلکہ غنیمت کا اطلاق ہرمسلمانوں کے ہر اس مال پر ہوتا ہے جو اسے خزانے یا دریا میں غوطہ لگا کرحاصل ہوتا ہے۔

لفظ غنیمت کی تفسیر


اہل سنت کے علماء نے لفظ "غنیمت" کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو مال مسلمانوں کو کفار کے ساتھ جنگ میں حاصل ہوتا ہے اسے مال غنیمت کہتے ہیں لہذا خمس کو ہی مال غنیمت قرار دیا ہے لیکن شیعہ فقہاء و مفسرین نے معصومین علیہم السلام کے فرمان کے مطابق اس آيت کی یہ تفسیر کی ہے کہ" غنیمت" سے مراد صرف جنگ میں ملنے والے مال پر ہی اطلاق نہیں ہوتا بلکہ غنیمت کا اطلاق ہرمسلمانوں کے ہر اس مال پر ہوتا ہے جو اسے خزانے یا دریا میں غوطہ لگا کرحاصل ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں فقہائے شیعہ کے بے شمار اقوال موجود ہیں یہاں پر نمونہ کے طور پر ہم صرف علامہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کے قول کو نقل کررہے ہیں آپ اپنی کتاب " مقنعہ" میں فرماتے ہیں: "واعلموا انما غنمتم من شئی" آیت کریمہ میں سے مراد ہروہ چیز ہے جو جنگ کے ذریعے حاصل ہو جیسے کفار کا مال، ان کا اسلحہ اور لباس وغیرہ اوراسی طرح خزانہ اوردریا سے جو مال غوطہ لگاکر حاصل کیا جائے۔
اسی طرح سے لوگوں کی زندگی میں تجارت، زراعت اور صنعت وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے اورپورے سال میں جو ان کے اخراجات زندگی سے بچ جا‏ئے اسے غنیمت کہا جاتا ہے۔ (1)
بہرحال اگرعلماء اہل سنت معاشرے کے اقتصادی امور سے حاصل ہونے والے پانچویں حصے کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان کا حق نہیں جانتے تو کم سے کم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ تو ان سے مخصوص کرہی سکتے ہیں۔
غالباً مورخین کا خیال ہے کہ خلیفہ وقت سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اختلاف صرف فدک کی بناء پر تھا جب کہ آپ کا خلیفہ سے تین چیزوں کی بناء پر اختلاف تھا۔
1۔ فدک جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دیا تھا۔
2۔ وہ میراث جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لئے چھوڑی تھی۔
3۔ ذوی القربیٰ جو نص قرآنی کے مطابق خمس کا ایک مصرف ''مال غنیمت'' ہے۔
عمرکہتا ہے جب حضرت فاطمہ زہرا نے فدک اور ذوی القربیٰ کا خلیفہ سے مطالبہ کیا تو خلیفہ نے منع کردیا اور انہیں نہیں دیا۔
مشہور مورخ انس ابن مالک کہتے ہیں:
فاطمہ سلام اللہ علیہا خلیفہ کے پاس آئیں اور آیت خمس کی تلاوت کی جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کا حصہ معین تھا توخلیفہ نے کہا: آپ جو قرآن پڑھ رہی ہیں میں بھی وہی پڑھ رہا ہوں، میں ذوی القربیٰ کا حق ہرگزآپ کو نہیں دوں گا بلکہ میں آپ کی زندگی کے تمام اخراجات برداشت کروں گا اور بقیہ مال کو مسلمانوں کے امور میں صرف کروں گا۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: یہ حکم خدا نہیں ہے بلکہ جب آیت خمس نازل ہوئی تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خاندان محمد کے تمام افراد کو بشارت ہو کہ خداوندعالم نے (اپنے فضل و کرم سے) ان لوگوں کو بے نیاز کردیا۔ خلیفہ نے کہا: میں عمر اور ابوعبیدہ سے مشورہ کروں گا اگر آپ کے بارے میں موافقت کی تو میں ذوی القربیٰ کا پورا حصہ آپ کو دیدوں گا،جب ان دونوں سے سوال کیا تو ان لوگوں نے خلیفہ کے نظریہ کی تائید کی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کواس وقت بہت زیادہ تعجب ہوا اور سمجھ گئیں کہ تینوں آپس میں مشورہ کرچکے ہیں۔(2)
خلیفہ کا کام صرف نص کے مقابلے میں اجتہاد ہی نہ تھا، قرآن کریم صریحا اعلان کر رہا ہے کہ مال غنیمت میں سے ایک حصہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزیزوں کا ہے لیکن اس نے بہانہ بناتے ہوئے کہ اس سلسلے میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ نہیں سنا ہے اور قرآن کریم کی آیت کا انکار کردیا۔
یہ تلاش و جستجو صرف اس لئے تھی کہ امام علیہ السلام کے ہاتھ میں مال دنیا سے کچھ نہ رہے اورانہیں اپنا محتاج بنادیں تا کہ وہ حکومت کے خلاف عملی قیام نہ کرسکیں۔ فقہ شیعہ کی نظرمیں، وہ روایتیں جو جانشین پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریعے سے ہم تک پہنچی ہیں وہ گواہی دیتی ہیں کہ ذی القربیٰ کا حصہ فقط پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ داروں کا ہی حق نہیں ہے کیونکہ اگر قرآن کریم نے ذی القربیٰ کو اس حصہ کا حقدار قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اس کی ذمہ داری و مسئولیت کی اصلی ذمہ دار امامت ہے اس لئے ضروری ہے کہ خدا اور پیغمبراور ذی القربیٰ، جن کا مال غنیمت (خمس) سے آدھا حصہ ہے پیغمبر کے عزیزوں کو جو مسلمانوں کے رہبر اورولی ہیں دیا جائے اور ان کے زیر نظر خرچ ہو۔
خلیفہ اس بات سے بخوبی باخبر تھا کہ اگر حضرت فاطمہ زہرا ذی القربی کا حق مانگ رہی ہیں تو وہ اپنا حق نہیں مانگ رہی ہیں بلکہ وہ حصہ مانگ رہی ہیں کہ جو شخص ذی القربی کے زمرے میں آتا ہے اسے دریافت کرکے مسلمانوں کے زعیم و رہبر کے عنوان سے مسلمانوں کے دینی موارد میں صرف کریں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ایسا شخص سوائے حضرت علی علیہ السلام کے کوئی اور نہیں ہے اور حضرت علی علیہ السلام کو اس حصہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ خلافت سے عقب نشینی اورامیرالمومنین علی علیہ السلام کی زعامت و رہبری کا اعتراف کرنا تھا اسی وجہ سے ابوبکر نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے مخاطب ہوکر کہا:ذی القربیٰ کا حصہ تمہیں ہرگز نہیں دوں گا اور تمہاری زندگی کے اخراجات نکالنے کے بعد باقی تمام مال کو اسلام کی راہ میں خرچ کروں گا۔


فدک ہمیشہ مختلف گروہوں اورسیاستوں کا شکار رہی


اگرچہ خلافت کے آغاز ہی میں فدک کے تصرف اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے مال کو غصب کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ حکومت کے خزانے کو مستحکم اور اصلی خلیفہ کو مال دنیا سے محروم کردیا جائے لیکن اسلامی حکومت کے بننے اور ترقی کرنے کے بعد مسلمانوں کی بڑی بڑی شخصیتوں نے اپنی دولت و ثروت کو خلیفہ کے پاس روانہ کیا اور خود خلافت نے فدک کی آمدنی کی وجہ سے اپنے کو بے نیاز سمجھا دوسری طرف یہ کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ خلفاء کی خلافت جامعہ اسلامی میں اورمستحکم ہوگئی اورکسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ حقیقی خلیفہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فدک کی آمدنی سے خلیفہ کی مخالفت کریں گے اور ان کے مقابلے میں جنگ کے لئے آمادہ ہوں گے۔
بہرحال دوسرے خلفاء کے زمانے میں پہلی علت فدک کا تصرف یعنی خلافت کو مال و دولت سے طاقت و قدرت عطا کرنا ختم ہوگیا تھا اور بطور کلی یہ مسئلہ منتفی ہوگیا تھا لیکن سرزمین فدک اوراس کی آمدنی آج بھی سیاسی اورہرخلیفہ کی ملکیت تھی اور ہمیشہ اس سے استفادہ کرتے تھے اور اس کے بارے میں مختلف نظریہ رکھتے تھے اور یہ کہ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے متعلق تھی اوروہ لوگ جنہوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے اپنے رشتہ کو قطع کرلیا تھا وہ فدک کوان کے حقیقی مالکوں کو واپس کرنے کے شدید مخالف تھے انہوں نے فدک کو عمومی مال اورحکومت کا حصہ قراردیا یا بعض نے اپنی جاگیریں یا اپنے کسی دوست و احباب کی جاگیربنادی لیکن جو لوگ خاندان پیغمبر سے الفت و محبت رکھتے تھے یا زمانے کی سیاست و وقت کا تقاضا تھا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بچوں سے محبت و دلجوئی سے پیش آئیں فدک کو فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بچوں کے حوالے کردیا. یہاں تک کہ دوسرا خلیفہ او ردوسری سیاست دوسرے خلیفہ و جانشین و سیاست کی طرف پلٹ جائے۔ اسی وجہ سے فدک کبھی ثابت و استوار نہیں تھی بلکہ ہمیشہ مختلف گروہوں اور متضاد سیاستوں کا شکار رہی ہے کبھی اپنے حقیقی مالکوں کی طرف واپس آتی اور ان کے پاس رہتی تھی بہرحال یہ ہمیشہ ایک حساس اور پیچیدہ اسلامی مسئلہ بنی رہی۔
خلفاء کے زمانے سے حضرت علی علیہ السلام کے زمانے تک فدک اپنی جگہ پر ثابت رہی اور اس کی آمدنی سے کچھ مقدار خاندان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اخراجات کے طور پر دیا جاتا تھا اور باقی مال دوسرے عمومی مال کی طرح خلفاء کی نگرانی میں خرچ ہوتا تھا لیکن جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت آئی تو اس نے فدک کو تین حصوں میں تقسم کیا، ایک حصہ مروان کو اورایک حصہ عمر و بن عثمان بن عفان کو اور ایک حصہ اپنے بیٹے یزید کے لئے مخصوص کردیا۔
فدک اسی طرح ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ میں جاتی رہی یہاں تک کہ جب مروان بن حکم کی حکومت آئی تو اس نے اپنی خلافت کے زمانے میں باقی دو حصوں کو ان لوگوں سے خرید لیا اور خود اپنا حصہ بنا لیا اور پھر اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا اور اس نے بھی اپنے بیٹے عمربن عبد العزیز کو دیدیا یا اس کے لئے بطور میراث چھوڑا۔
جب عمربن عبد العزیز کی خلافت آئی تو اس نے ارادہ کیا کہ بنی امیہ کے تمام بدنما دھبوں کو جامعہ اسلامی کے دامن سے پاک کردے اسی وجہ سے جو کچھ وہ خاندان پیغمبراسلام سے علاقہ رکھتا تھا سب سے پہلے جس چیز کو اس نے اس کے حقیقی مالک کو واپس کیا وہ فدک ہی تھی.اس نے فدک کو حسن بن علی علیہما السلام کے حوالے کیا اور ایک روایت کے مطابق امام سجاد علیہ السلام(یا ابن ابی الحدید کے نقل کرنے کے مطابق)حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کے حوالے کیا۔(اس دوسرے احتمال کواگرچہ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ عمر بن عبد العزیز ٩٩ھ میں خلافت پر بیٹھا۔) اس نے مدینہ کے گورنر ابوبکر بن عمرو کے نام خط لکھا اورحکم دیا کہ فدک کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بچوں کو واپس کردے فریبی حاکم مدنیہ نے خط کا جواب دیتے ہوئے خلیفہ کو لکھا:فاطمہ کے مدینے میں بہت سے بچے ہیں اور ہر شخص اپنے گھر میں زندگی بسرکررہا ہے میں فدک کو ان میں سے کس کو واپس کروں؟عبد العزیز کے بیٹے نے جب حاکم کے خط کو پڑھا تو بہت سخت ناراض ہوا اور کہا: اگر میں تجھے گائے کو قتل کرنے کا حکم دوں تو تم بنی اسرائیل کی طرح کہوگے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہے جیسے ہی میرا خط تجھ تک پہنچے فوراً فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بچوں میں تقسیم کردے جو علی کی اولاد ہیں۔
خلافت کے ٹکڑوں پر پلنے والے جو سب کے سب بنی امیہ کے ماننے والے تھے خلیفہ کے اس فعل سے بہت سخت ناراض ہوئے اورکہا: تم نے اپنے اس عمل سے شیخین( عمراور ابوبکر) کو گناہگارٹھہرایا ہے زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ عمر بن قیس اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے شام پہنچا اورخلیفہ کے اس کام پر تنقید کی۔ خلیفہ نے ان سب کے جواب میں کہا:
تم لوگ جاہل و نادان ہو جو کچھ مجھے یاد ہے تم لوگوں نے بھی اسے سنا ہے لیکن فراموش کردیا ہے میرے استاد ابوبکربن محمد عمرو بن حزم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا'' خلفاء کے زمانے میں فدک اموال عمومی اورحکومت کا حصہ تھا پھر وہ مروان تک پہنچی اورانہوں نے میرے باپ عبدالعزیز کے حوالے کیا اور میرے باپ کے انتقال کے بعد مجھے اور میرے بھائیوں کو بطور میراث حاصل ہوئی اور میرے بھائیوں نے اپنے حصوں کو مجھے بیچ دیا یا مجھے دیدیا اور میں نے حدیث رسول خدا کے حکم سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بچوں کو واپس کردیا۔

سوالات:


1- حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ابوبکر سے کس مسئلہ پر اختلاف تھا۔؟
2۔ جس وقت عمر بن عبد العزیزخلافت پر پہنچا تو فدک کے بارے میں کیا ارادہ کیا۔؟


منابع:


1- کتاب مقنعہ علامہ شیخ مفید ص 276
2- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج16 ص 230   


دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: